Surah al kafiroon ] Surat No. 109 Ayat NO. 0 سورة الکافرون نام : پہلی ہی آیت قل یایھا الکٰفرون کے لفظ الکافرون کو اس سورہ کا نام قرار دیا گیا ہے ۔ زمانۂ نزول : حضرت عبداللہ بن مسعود ، حضرت حسن بصری اور عکرمہ کہتے ہیں کہ یہ سورۃ مکی ہے ، حضرت عبداللہ بن زبیر کہتے ہیں کہ مدنی ہے ، اور حضرت عبداللہ بن عباس اور قتادہ سے دو قول منقول ہوئے ہیں ۔ ایک یہ کہ یہ مکی ہے اور دوسرا یہ کہ مدنی ہے ۔ لیکن جمہور مفسرین کے نزدیک یہ مکی سورۃ ہے ، اور اس کا مضمون خود اس کے مکی ہونے پر دلالت کرتا ہے ۔ تاریخی پس منظر : مکۂ معظمہ میں ایک دور ایسا گزرا ہے جب نبی ﷺ کی دعوت اسلام کے خلاف قریش کے مشرک معاشرے میں مخالفت کا طوفان تو برپا ہو چکا تھا ، لیکن ابھی قریش کے سردار اس بات سے بالکل مایوس نہیں ہوئے تھے کہ حضور ﷺ کو کسی نہ کسی طرح مصالحت پر آمادہ کیا جا سکے گا ۔ اس لیے وقتاً فوقتاً وہ آپ کے پاس مصالحت کی مختلف تجویزیں لے لے کر آتے رہتے تھے تاکہ آپ ان میں سے کسی کو مان لیں اور وہ نزاع ختم ہو جائے جو آپ کے اور ان کے درمیان رونما ہو چکی تھی ۔ اس سلسلے میں متعدد روایات احادیث میں منقول ہوئی ہیں : حضرت عبداللہ بن عباس کی روایت ہے کہ قریش کے لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے کہا ہم آپ کو اتنا مال دیے دیتے ہیں کہ آپ مکہ کے سب سے زیادہ دولت مند آدمی بن جائیں ، آپ جس عورت کو پسند کریں اس سے آپ کی شادی کیے دیتے ہیں ، ہم آپ کے پیچھے چلنے کے لیے تیار ہیں ، آپ بس ہماری یہ بات مان لیں کہ ہمارے معبودوں کی برائی کرنے سے باز رہیں ۔ اگر یہ آپ کو منظور نہیں ، تو ہم ایک اور تجویز آپ کے سامنے پیش کرتے ہیں جس میں آپ کی بھی بھلائی ہے اور ہماری بھی ۔ حضور ﷺ نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ انہوں نے کہا ایک سال آپ ہمارے معبودوں لات اور عزیٰ کی عبادت کریں اور ایک سال ہم آپ کے معبود کی عبادت کریں ۔ حضور ﷺ نے فرمایا اچھا ، ٹھہرو ، میں دیکھتا ہوں کہ میرے رب کی طرف سے کیا حکم آتا ہے ۔ ( اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کسی درجہ میں بھی اس تجویز کو قابل قبول کیا معنی قابل غور بھی سمجھتے تھے ، اور آپ نے معاذ اللہ کفار کو یہ جواب اس امید پر دیا تھا کہ شاید اللہ تعالٰی کی طرف سے اس کی منظوری آ جائے ۔ بلکہ دراصل یہ بات بالکل ایسی ہی تھی جیسے کسی ماتحت افسر کے سامنے کوئی بے جا مطالبہ پیش کیا جائے اور وہ جانتا ہو کہ اس کی حکومت کے لیے یہ مطالبہ قابل قبول نہیں ہے ، مگر وہ خود صاف انکار کر دینے کے بجائے مطالبہ کرنے والوں سے کہے کہ میں آپ کی درخواست اوپر بھیجے دیتا ہوں ، جو کچھ وہاں سے جواب آئے گا وہ آپ کو بتا دوں گا ۔ اس سے فرق یہ واقع ہوتا ہے کہ ماتحت افسر اگر خود ہی انکار کر دے تو لوگوں کا اصرار جاری رہتا ہے ، لیکن اگر وہ بتائے کہ اوپر سے حکومت کا جواب ہی تمہارے مطالبہ کے خلاف آیا ہے تو لوگ مایو�