صفر کے مہینے میں نحوست کا عقیدہ غلط ہے – تفصیلی وضاحت
اسلام میں کسی مہینے یا دن کو بذاتِ خود منحوس سمجھنا درست نہیں ہے۔ صفر کے مہینے کے بارے میں بھی عوام میں مختلف قسم کے توہمات پائے جاتے ہیں جیسے شادی بیاہ نہ کرنا، کاروبار شروع نہ کرنا یا کسی سفر کو مؤخر کرنا وغیرہ۔ یہ سب جاہلیت کے عقائد سے ماخوذ ہیں، جنہیں اسلام نے باطل قرار دیا۔
قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت
1. قرآن میں نحوست کی نفی اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: “ما أصاب من مصيبة إلا بإذن الله” (سورۃ التغابن، آیت 11) یعنی: جو بھی مصیبت آتی ہے، وہ اللہ کے حکم سے آتی ہے، کسی دن یا مہینے میں بذاتِ خود کوئی نحوست نہیں۔
2. حدیث میں وضاحت رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “لا عدوی ولا طيرة ولا هامة ولا صفر” (بخاری و مسلم) یعنی: "نہ کوئی بیماری خود بخود لگتی ہے، نہ بدشگونی درست ہے، نہ ہامہ (پرندوں کے بارے میں جاہلی عقیدہ) اور نہ صفر میں کوئی نحوست ہے۔"
اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صفر کو منحوس سمجھنا غلط ہے۔
3. اسلام میں اچھا گمان اور دعا نبی ﷺ نے بدشگونی سے منع فرمایا اور ہمیشہ اچھا گمان رکھنے کی تعلیم دی۔ آپ ﷺ نے فرمایا: "الطِّيَرَةُ شِرْكٌ" (ابو داؤد) یعنی: بدشگونی لینا شرک کے برابر ہے۔
نتیجہ:
صفر کے مہینے کو منحوس سمجھنا ایک جاہلانہ عقیدہ ہے۔
اس مہینے میں شادی، کاروبار، یا سفر کرنا بالکل درست اور جائز ہے۔
مسلمان کو چاہیے کہ توہمات اور بدگمانیوں سے بچے، اور ہر حال میں اللہ پر بھروسہ رکھے۔