Skip to playerSkip to main contentSkip to footer
  • 2 days ago
صفر کے مہینے میں نحوست کا عقیدہ غلط ہے – تفصیلی وضاحت

اسلام میں کسی مہینے یا دن کو بذاتِ خود منحوس سمجھنا درست نہیں ہے۔ صفر کے مہینے کے بارے میں بھی عوام میں مختلف قسم کے توہمات پائے جاتے ہیں جیسے شادی بیاہ نہ کرنا، کاروبار شروع نہ کرنا یا کسی سفر کو مؤخر کرنا وغیرہ۔ یہ سب جاہلیت کے عقائد سے ماخوذ ہیں، جنہیں اسلام نے باطل قرار دیا۔

قرآن و سنت کی روشنی میں وضاحت

1. قرآن میں نحوست کی نفی
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:
“ما أصاب من مصيبة إلا بإذن الله”
(سورۃ التغابن، آیت 11)
یعنی: جو بھی مصیبت آتی ہے، وہ اللہ کے حکم سے آتی ہے، کسی دن یا مہینے میں بذاتِ خود کوئی نحوست نہیں۔


2. حدیث میں وضاحت
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
“لا عدوی ولا طيرة ولا هامة ولا صفر”
(بخاری و مسلم)
یعنی: "نہ کوئی بیماری خود بخود لگتی ہے، نہ بدشگونی درست ہے، نہ ہامہ (پرندوں کے بارے میں جاہلی عقیدہ) اور نہ صفر میں کوئی نحوست ہے۔"

اس حدیث سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ صفر کو منحوس سمجھنا غلط ہے۔


3. اسلام میں اچھا گمان اور دعا
نبی ﷺ نے بدشگونی سے منع فرمایا اور ہمیشہ اچھا گمان رکھنے کی تعلیم دی۔
آپ ﷺ نے فرمایا:
"الطِّيَرَةُ شِرْكٌ"
(ابو داؤد)
یعنی: بدشگونی لینا شرک کے برابر ہے۔



نتیجہ:

صفر کے مہینے کو منحوس سمجھنا ایک جاہلانہ عقیدہ ہے۔

اس مہینے میں شادی، کاروبار، یا سفر کرنا بالکل درست اور جائز ہے۔

مسلمان کو چاہیے کہ توہمات اور بدگمانیوں سے بچے، اور ہر حال میں اللہ پر بھروسہ رکھے۔


#اسلامی_عقائد
#ماہ_صفر
#نحوست_کا_رد
#قرآن_و_سنت
#بدشگونی
#اسلامی_تعلیمات
#توحید
#خرافات_سے_بچیں
#سنت_نبوی
#ایمان_باللہ

Category

📚
Learning
Transcript
00:00Bismillah ar-Rahman ar-Rahim
00:02عن anasin r.a. عنhu قال
00:05قال Rasulullah sallallahu alayhi wa sallam
00:08ما من مسلم يغرس غرسا أو يزرع زرعا
00:13فيأكل منه طير أو إنسان أو بهيمة
00:17إلا كان له به صدقا
00:19رواح البخاري
00:21نبي کريم sallallahu alayhi wa sallam
00:24نے ارشاد فرمایا
00:25کوئی بھی مسلمان جو ایک درخت کا پودا لگائے
00:28یا کھیتی میں بیج بوئے
00:30پھر اس میں سے پرندے انسان یا جانور کھاتے رہیں
00:34تو یہ اس کے لیے صدقا ہے
00:36دوستو دینِ اسلام دینِ فطرت ہے
00:41اسی لیے اس میں عبادات کے دائرہ کو بہت وسیع رکھا گیا ہے
00:45ہر وہ کام جس سے مخلوقِ خدا راحت پائے
00:50جس سے مخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچے
00:52اس کو عبادت قرار دیا گیا ہے
00:54انہی کاموں میں سے ایک کام درخت لگانا ہے
00:57کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم
00:59نے درخت لگانے کو صدقا قرار دیا ہے
01:02اس لیے کہ درخت لگانے سے مخلوقِ خدا کو فائدہ پہنچتا ہے
01:07کہ انسان درخت کے سائے میں بیٹھتے ہیں
01:09پرندے اس پر ٹھکانہ بناتے ہیں
01:11جانور اس کے سائے میں بیٹھتے ہیں
01:13اس کے پتے کھاتے ہیں
01:14اس لیے حضور علیہ السلام نے درخت لگانے کو صدقا قرار دیا ہے
01:19حضرتِ معاذ رضی اللہ تعالیٰ نے بیان فرماتے ہیں
01:22کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی بات کو قدرِ تفصیل کے ساتھ
01:26ایک دوسری روایت میں بیان فرمایا
01:28من غرص غرصا فی غیر ظلم
01:32جو آدمی درخت لگاتا ہے
01:35پودا لگاتا ہے
01:36لیکن ظلم میں نہیں
01:37تعدی اور ظلم کے بغیر
01:38ظلم و تعدی کا کیا مطلب ہے
01:40کسی کی جگہ پہ قبضہ کیا
01:42اور وہاں درخت لگا دیئے
01:43کہ مجھے صدقا کا ثواب ملے گا
01:44یاد رکھیے قطعان اس طرح ثواب نہیں ملے گا
01:47اسی طرح کوئی آدمی یہ سوچ رہا ہے
01:48کہ میں کسی کی جگہ پہ قبضہ کر کے مسجد بنوا دوں
01:51کسی کی جگہ پہ قبضہ کر کے مدرسہ بنا دوں
01:53تو اس کو کبھی بھی ثواب نہیں ملے گا
01:56جب ظلم کے ساتھ کسی کام کو کیا جائے
01:58تو یاد رکھیے اس میں ثواب نہیں ہے
02:00اس لیے ایسی جگہ پہ درخت لگائیں
02:03جو ہماری اپنی ملکیتی جگہ ہے
02:05یا جہاں اجازت دی گئی ہے درخت لگانے کی
02:08تو درخواست ہے
02:09ہر بھائی اور بہن جس تک یہ پیغام پہنچ رہا ہے
02:13ایسی جگہ جو آپ کے گھر میں ہے
02:14یا ایسی جگہ جہاں اجازت دی گئی ہے
02:17وہاں پودہ لگائیے
02:18پھر مستقل اس پودے کی آبیاری کیجئے
02:21اس کا دھیان کیجئے
02:22اس کے گردبار لگائیے
02:23کہ ابھی سے جانور اس کو کھا نہ لیں
02:26جب یہی پودہ درخت بن جائے گا
02:28تو یہی جانور اس کے سائے میں بیٹھیں گے
02:30اس سے فائدہ اٹھائیں گے
02:32تو ہم میں سے ہر بھائی بہن کو
02:34جس تک یہ پیغام پہنچ رہا ہے
02:36کم از کم ایک درخت
02:37ایک پودہ خود یا اپنے بچوں سے
02:40ضرور لگوانا چاہیے
02:41السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ

Recommended