Surah al waqiya ]Surat No. 56 Ayat NO. 0 سورة الْوَاقِعَة نام : پہلی ہی آیت کے لفظ اَلْواقِعَہ کو اس سورت کا نام قرار دیا گیا ہے ۔ زمانہ نزول : حضرت عبداللہ بن عباس نے سورتوں کی جو ترتیب نزول بیان کی ہے اس میں وہ فرماتے ہیں کہ پہلے سورہ طٰہٰ نازل ہوئی ، پھر الواقعہ اور اس کے بعد الشعراء ( الاتْقان للسُّیوطی ) ۔ یہی ترتیب عکرمہ نے بھی بیان کی ہے ( بیہقی ، دلائل النبوۃ ) ۔ اس کی تائید اس قصہ سے بھی ہوتی ہے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایمان لانے کے بارے میں ابن ہشام نے ابن اسحاق سے نقل کیا ہے ۔ اس میں یہ ذکر آتا ہے کہ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنی بہن کے گھر میں داخل ہوئے تو سورہ طٰہٰ پڑھی جا رہی تھی ۔ ان کی آہٹ سن کر ان لوگوں نے قرآن کے اوراق چھپا دیے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پہلے تو بہنوئی پر پل پڑے اور جب بہن ان کو بچانے آئیں تو ان کو بھی مارا یہاں تک کہ ان کا سر پھٹ گیا ۔ بہن کا خون بہتے دیکھ کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو سخت ندامت ہوئی ، اور انہوں نے کہا ، اچھا مجھے وہ صحیفہ دکھاؤ جسے تم نے چھپا لیا ہے ۔ دیکھوں تو سہی اس میں کیا لکھا ہے ۔ بہن نے کہا ’’ آپ اپنے شرک کی وجہ سے نجس ہیں ، وانہ لا یمسھا الا الطاھر ،’’ اس صحیفے کو صرف طاہر آدمی ہی ہاتھ لگا سکتا ہے ۔‘‘ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اٹھ کر غسل کیا اور پھر اس صحیفے کو لے کر پڑھا ۔ اس سے معلوم ہوا کہ اس وقت سورہ واقعہ نازل ہو چکی تھی ، کیونکہ اسی میں آیت لا یمسہ الا المطھرون وارد ہوئی ہے ۔ اور یہ تاریخی طور پر ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہجرت حبشہ کے بعد 5 نبوی میں ایمان لائے ہیں ۔ موضوع اور مضمون : اس کا موضوع آخرت ، توحید اور قرآن کے متعلق کفار مکہ کے شبہات کی تردید ہے ۔ وہ سب سے زیادہ جس چیز کو ناقابل یقین قرار دیتے تھے وہ یہ تھی کہ کبھی قیامت برپا ہو گی جس میں زمین و آسمان کا سارا نظام درہم برہم ہو جائے گا اور پھر تمام مرے ہوئے انسان دوبارہ جلا اٹھائے جائیں گے اور ان کا محاسبہ ہو گا اور نیک انسان جنت کے باغوں میں رکھے جائیں گے اور گناہ گار انسان دوزخ میں ڈالے جائیں گے ۔ ان کا کہنا یہ تھا کہ یہ سب خیالی باتیں ہیں جن کا عالم واقعہ میں پیش آنا غیر ممکن ہے ۔ اس کے جواب میں فرمایا کہ جب وہ واقعہ پیش آ جائے گا اس وقت کوئی یہ جھوٹ بولنے والا نہ ہو گا کہ وہ پیش نہیں آیا ہے ، نہ کسی کی یہ طاقت ہو گی کہ اسے آتے آتے روک دے ، یا واقعہ سے غیر واقعہ بنا دے ۔ اس وقت لازماً تمام انسان تین طبقات میں تقسیم ہو جائیں گے ۔ ایک ، سابقین ۔ دوسرے ، عام صالحین ، تیسرے وہ لوگ جو آخرت کے منکر رہے اور مرتے دم تک کفر و شرک اور گناہ کبیرہ پر جمے رہے ۔ ان تینوں طبقات کے ساتھ جو معاملہ ہو گا اسے تفصیل کے ساتھ آیت 7 سے 56 تک بیان کیا گیا ہے ۔ اس کے بعد آیت 57 سے 74 تک اسلام کے ان دونوں بنیا�