- 5/12/2025
Sniper series episode 82 a story full of thrill and suspense operation in waziristan most deadly operation in waziristan
#sniper
#thrill
#danger
#Waziristan
#Pakistan
#Army
#sniper
#thrill
#danger
#Waziristan
#Pakistan
#Army
Category
😹
FunTranscript
00:00پاکستانی سنائپر
00:30پتہ نہیں یہ عورتیں ایسا کیوں کرتی ہیں
00:31جب انہیں پتہ چل جاتا ہے کہ ان کے بغیر شوہر کا زندہ رہنا مشکل ہے
00:35تو اپنی احمد جتانے کے لیے یہ مرنے سے بھی دریغ نہیں کرتی
00:38میں کچھ نہ بولا
00:40سردار بتانے لگا
00:41اس نے اپنی موت کی خبر ماں اور آپ کے گھر والوں تک پہنچانے سے منع کر دیا تھا
00:46اس نے واضح انداز میں بتا دیا تھا کہ سب سے پہلے اس کی موت کی بابت تمہیں اطلاع دی جائے
00:50اور پھر باقی تمام کو آپ خود ہی بتا دیں گے
00:53جب قابل خان محسود نے تمہارا پتہ کرایا تو اسے معلوم ہوا کہ تم دو تین دن پہلے ہی افغانستان چلے گئے ہو
00:59وہ تمہارے گھر جا کر پلوشہ کی ماں کو ملا تھا
01:02بہانہ اس نے یہ بنایا تھا کہ پلوشہ اس کے پاس تھوڑا سامان چھوڑ کر آگے افغانستان چلے گئی ہے
01:07تب ہی پلوشہ کی ماں نے اسے تمہارے افغانستان چانے کے بارے میں بتا دیا
01:11اس کے بعد اسے تو حمد نہ ہوئی تمہارے گھر والوں کو اطلاع دینے کی
01:14اور نہ مجھے حمد ہوئی کیونکہ جب مجھے ہوش آیا تو وہ کب کی دفن ہو چکی تھی
01:19میرے دماغ میں سائیں سائیں ہو رہی تھی
01:21کچھ بھی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا ہو گیا تھا
01:24میرے بترین اندیش حقیقت کا روپ دھار چکے تھے
01:27ایک دفعہ پہلے بھی وہ مجھے چھوڑ چکی تھی اور اب دوبارہ اس نے وہی کیا تھا
01:30پہلے بھی وہ اپنی ماں اور بھائی کی وجہ سے مجبور تھی
01:33اور اب اس کے پاس محلت ختم ہو چکی تھی
01:35مجھے مسلسل چپ دیکھ کر سردار خان نے کہا
01:38یار کچھ تو بولو خاموش کیوں
01:40لیکن میرے پاس الفاظ ختم ہو چکے تھے
01:42سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ سردار کو کیا کہوں
01:45گلا کروں یا تسلی دوں
01:46کوسوں یا نظر انداز کروں
01:48اس کا کوئی قصور نہیں تھا لیکن انسان کو دل کی بھڑاس نکالنے کے لیے
01:52کوئی حدف تو چاہیے ہوتا ہے
01:54اپنی نقصان کا ذمہ دار کسی کو تو ٹھہرانا ہوتا ہے
01:56موت ایک اٹل حقیقت ہے
01:58لیکن دل و دماغ تو موت سے بچنے کے
02:00کئی بہانیں تراشتے ہیں
02:02اگر یوں نہ کیا ہوتا تو یوں ہو جاتا
02:04اور وہاں نہ گیا ہوتا تو ویسا ہوتا
02:06یہ کر لیا ہوتا تو جان بچ سکتی تھی وغیرہ وغیرہ
02:09حالانکہ یہ سب بس پچتاوے کو بڑھانے والی باتیں ہیں
02:12سردار بولا میں بے قصور ہوں راجہ
02:14میں بے بس ہو گیا تھا
02:15میں اسے کبھی بھی مرنے نہ دیتا
02:17دنیا کی ہر طاقت سے ٹکرا جاتا
02:19مگر افسوس
02:20اسرائیل علیہ السلام سے تو مقابلہ نہیں کیا جا سکتا
02:23میں چپ چاپ اٹھ کر بیٹھک کے دروازے کی طرف پڑ گیا
02:26سردار نے مجھے پکار کر روکنے کی کوشش کی
02:28مگر میں دروازے سے باہر نکل کر کار میں بیٹھ گیا
02:31اس کے بیٹھک کے دروازے تک پہنچنے سے پہلے
02:33میں کار آگے بڑھا چکا تھا
02:35اور پھر مجھے معلوم نہ ہوا
02:36کہ کیسے میں بغیر کسی حادثے کے گھر تک پہنچا
02:39منتشر سوچیں
02:40بکھرے خیالات
02:41عذیت بھرے احساسات
02:43آنکھوں سے بہتا پانی
02:44اور درد و غم سے بوچھل دل کے ساتھ
02:46ٹرائیونگ کرنا اتنا بھی آسان نہیں تھا
02:48گھر کا دروازہ بند تھا
02:49دستک کے جواب میں ابو جان نے دروازہ کھولا تھا
02:52اور ان کی شفقت بھری آگوش میں سر چھپاتے ہی
02:55میرے بند ہونٹوں سے درد بھری سسکیاں برامد ہوں
02:57ابو جان گھبرا گئے تھے
02:59کیا ہوا بیٹا
03:00ابو جان کی آواز میں چھپے اندیشے غیر متوقع نہیں تھے
03:03میں نے کہا وہ چلی گئی ہے ابو جان
03:04وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی ہے
03:06اس کے ساتھ نبھانے کے سارے وعدے اور قسمیں جھوٹے تھے
03:09تمام عورتیں ایک جیسی ہوتی ہیں
03:11ابو جان نے مجھے زور سے اپنے ساتھ بھیجتے ہوئے پوچھا
03:14کہاں چلی گئی ہے بیٹا
03:15کس کے ساتھ گئی ہے
03:16میں نے عذیت بھرے لہجے میں کہا
03:17کلی گئی ہے ابو جان
03:19ایسی جگہ جہاں سے کوئی نہیں لوٹتا
03:21ہم دروازے کے سامنے ہی کھڑے تھے
03:23موسم ایسا تھا کہ گھر والوں نے چارپائیاں سہن میں بچھائی ہوئی تھی
03:26ابو جان مجھے ساتھ لپٹائے ہوئے چارپائیوں کی طرف بڑھ گئے
03:30اگلے دو تین لمحوں میں پلوشہ کی ماں اور پھپو جان کو پلوشہ کی موت کے بارے میں معلوم ہو چکا تھا
03:35پھپو جان دھاڑے مارتی ہوئی مجھ سے آن لپٹی تھی
03:38آن کی آن میں تمام ماحول ماتم زدہ ہو گیا تھا
03:41صرف پلوشہ کا معصوم بھائی عدیل بے خبر پڑا سو رہا تھا
03:45اس کے علاوہ رات پر کوئی بھی نہیں سویا تھا
03:47میں گھٹنوں پر سر ٹیکے بند آنکھوں سے اس کے ساتھ گزرے لمحات کو فلم کی طرح دیکھتا رہا
03:53کوئی پل بھی تو مجھے نہیں بھولا تھا
03:55جس وقت وہ پہلی بار میرے سامنے آئی
03:57اور جب میں نے آخری بار اسے گلے سے لگاتے ہوئے
04:00اس کی کشادہ جبین پر آخری بار مہر محبت سبت کی
04:03ان لمحات کے درمیان میں موجود ہر پل ہر لمحہ
04:06ہر گھڑی میری یاداشت میں وہ محفوظ رہی
04:08اس کے پیارے ہاتھوں نے میرے جسم کو جس جس جگہ پر چھوا تھا
04:12اس لمس کی گرمی اب تک تازہ تھی
04:14اس کے سانسوں کی مہکتی خوشبو
04:16اس وقت بھی میری قوت شامہ محسوس کر سکتی تھی
04:19اس کی مدھر آواز میری سمات میں زندہ تھی
04:22اس کا چاند سا روشن مکھڑا میری بسارتوں کے سامنے تھا
04:26اس کی شوخیاں شرارتیں محبت بھرے گلے شک ہوئے
04:28نازو ادا کچھ بھی تو نہیں بھولا تھا
04:31اور بھول بھی کیسے سکتا تھا
04:32کوئی سانس لینا بھی بھول سکتا ہے
04:34صبح کی آزان سن کر ابو جان نے میرے سر پر شفقت بھرا ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
04:38بیٹا نماز پڑھ لو
04:39اور میں خاموشی سے غسل خانے کی طرف پڑھ گیا
04:42وضو کر کے ہم مسجد کی طرف پڑھ گئے
04:44واپسی پر عدیل چاک گیا تھا
04:46مجھے دیکھتے ہی وہ خوشی سے چہکتا ہوا میرے ساتھ لے پٹ گیا
04:49وہ پلوشہ کو بہت پیارا تھا
04:51میں بے ساختہ اسے چوننے لگا
04:53اس معصوم کو کچھ پتہ نہیں تھا
04:54کہ گھر پر کیا قیامت بیٹھ چکی ہے
04:56اس نے چھوٹتے ہی اپنی باجی کا پوچھا
04:58میں اس کا سوال نظر انداز کرتے ہوئے پوچھنے لگا
05:01میرا بیٹا سکول جاتا ہے یا نہیں
05:02وہ بولا ہاں لالا جان
05:04سکول تو جاتا ہوں
05:05اور اب مجھے پنجابی میں بات کرنا بھی آگئی ہے
05:08اس نے فخریہ لہچے میں بولا
05:09میں نے پوچھا تو کس کلاس میں ہو
05:11میں اس کا ذہن بٹانے کے لیے مسلسل سوال کرنے لگا تھا
05:14تاکہ اسے سوال کرنے کا موقع نہ ملے
05:16اسی دوران پوپو جان اس کے لیے ناشتہ لے آئی تھی
05:18پلوشہ کی ماں گھٹنوں میں سر دیئے گمسم بیٹھی تھی
05:21پلوشہ اس کی بیٹی نہیں بیٹا تھی
05:23وہ بہت حمد جرت اور حوصلے والی تھی
05:34کہ پلوشہ کے جانے کے بعد
05:36اس کا ہمارے گھر میں رہنے کا کوئی جواز نہیں بنتا تھا
05:39یہ اور بات کہ میں انہیں کسی صورت
05:41گھر سے دور جانے کی اجازت نہ دیتا
05:43پلوشہ اپنے چھوٹے بھائی کو
05:44عالی تعلیم دلانے کی خواہش مند تھی
05:46اور اس کی یہ خواہش میں ہر صورت میں پوری کرنا چاہتا تھا
05:49پوپو جان سے ناشتہ لے کر میں
05:51عدیل کو ناشتہ کروانے لگا
05:53اس نے ایک بار پھر اپنی باجی کے بارے میں پوچھا
05:55جسے میں آئے بائے میں ٹال گیا
05:57اسے تیار کروا کر میں نے سکول بھیج دیا
05:59دوپہر تک پلوشہ کی موت کی خبر
06:02پورے محلے میں پھیل چکی تھی
06:03مرد بیٹھک میں آ کر تازیت کرنے لگے
06:05جبکہ عورتوں کی آمد سے ہمارا سہن بھر گیا تھا
06:08میں کمرے میں گھسا رہا
06:10یہ وہی کمرہ تھا جہاں میں نے
06:12اسے آخری بار گلے لگایا تھا
06:13اس وقت وہ دلہن کے روپ میں قیامت دھا رہی تھی
06:16اس کی ریشمی کلائیوں میں کنگن پہنا کر
06:18میں نے اسے تسلی دی تھی
06:19وہ میرے ساتھ چلنے پر بزد تھی
06:21میں نے حسرت بھرے لہجے میں سوچا
06:23میں اسے ساتھ لے گیا ہوتا تو شاید وہ پچھ جاتی
06:26کمرے میں ابھی تک شادی کی سجاوٹ موجود تھی
06:28میرے جانے کے بعد پلوشہ نے
06:30گھر میں چند دن سے زیادہ نہیں گزارے تھے
06:32اس کے باوجود کمرے میں اس کی خوشبو باقی تھی
06:35سپہر کو ویس اپنی بیوی
06:37عرم کے ساتھ میرے کمرے میں آ گیا
06:38میاں بیوی نے دکھی دل کے ساتھ تازیت کی
06:40مجھے حوصلہ دیا اور تھوڑی دیر بیٹھ کر
06:43ہم دردی بھرے کلمات سے مجھے تسلی دے کر
06:45رخصت ہو گئے
06:46غم جتنا بھی بڑا ہو صدا نہیں رہتا
06:48دکھ کتنا ہی زیادہ ہو
06:50وقت کی گرد اسے اپنی لپیٹ میں لے کر
06:52بھولا بسرا کر دیتی ہے
06:53عذیت کی انتہا اگر وقت بیٹنے کے ساتھ
06:56راحت میں نہیں بھی ڈلتی
06:57تب بھی عذیت میں پہلے جتنا تمخم باقی نہیں رہتا
07:00بچھڑنے والا جتنا بھی پیارا ہو
07:02اس کے دور جانے کی حقیقت کو تسلیم کر لینا پڑتا ہے
07:05آہستہ آہستہ ہم لوگوں کو بھی
07:07پلوشہ کی جتائی کا دکھ چھیلنے کی عادت ہو گئی تھی
07:09میری چھٹی پوری ہو گئی تھی
07:11مگر میں واپس جانے پر تیار نہیں تھا
07:13راو تصور صاحب نے کماننگ آفیسر سے بات کر کے
07:16مجھے یونٹ کی طرف سے دو ماہ کی مزید چھٹی دلوا دی تھی
07:18دوست احباب مجھے ملنے اور تسلی دینے آئے تھے
07:22اورنگزیب صاحب نے بھی آ کر تازیت کی تھی
07:24واپس جاتے ہوئے میں نے کار کچابی شکریہ کے ساتھ ان کے حوالے کر دی
07:28ایک دن پلوشہ کی ماں گلناز مجھ سے واپس جانے کی اجازت مانگ رہی تھی
07:31بولی بیٹا میں چاہتی ہوں اپنے بھائی کے پاس انگو رڈے چلی جاؤں
07:35میں نے پوچھا یہاں کوئی تکلیف ہے ماں جی
07:37وہ دکھے دل سے بولی تکلیف تو نہیں ہے بیٹا
07:40مگر اب ہم کس رشتے سے یہاں ہیں
07:41میں زخمی لہجے میں بولا تو کیا آپ کا خیال ہے
07:44اس بے وفا کے جانے سے ہمارے سارے رشتے ٹوٹ گئے ہیں
07:47وہ بولی پھر بھی بیٹا
07:49انہوں نے کچھ کہنے کے لیے مو کھولنا چاہا
07:51میں نے فوراں قطع کلامی کرتے ہوئے کہا ماں جی
07:53آج کے بعد اگر کچھ ایسا کہا تو میں خفا ہو جاؤں گا
08:05علاقے کے رواج کے مطابق کتنی رقم کا مطالبہ کیا تھا
08:08پلوشہ کی بات ذہن میں آتے ہی میرے گھونٹوں پر مسکراہت کھلنے لگی
08:12میں نے کہا پورے پچاس لاکھ
08:14اور وہ رقم میرے اکاؤنٹ میں جمع ہے
08:15اس کی ساری رقم آپ کی اور عدیل کی ہی تو ہے
08:18اور یہ رقم آپ کی ضروریات کے لیے کافی ہے
08:21وہ عدیل کو عالی تعلیم دلوانا چاہتی تھی
08:23کیا آپ چاہتی ہیں کہ میں عدیل کو واپس انگور اڈے بھیج کر
08:26اس کی روح کے سامنے شرمندہ ہو جاؤں
08:28وہ بولی بیٹا میرا یہ مطلب نہیں تھا
08:30ان کی آنکھوں میں نمی اُبھرائی
08:32ان کا ہاتھ پکڑ کر میں بولا
08:33آپ پلوشہ کی ماں ہیں
08:35اور اس کی ہر چیز سے مجھے اتنی ہی محبت ہے جتنی اس سے تھی
08:38آپ میری بھی ماں ہیں
08:40کبھی دل میں ایسی ویسی بات کو جگہ نہ دینا
08:42اس گھر پر آپ کا اتنا ہی حق ہے جتنا میرا یا بھو کا
08:45یہ پلوشہ کا گھر ہے
08:46وہ مجھے چھوڑ کر چلی گئی ہے
08:48میں نے اسے نہیں چھوڑا
08:49انہوں نے دست شفقت میرے سر پر رکھ دیا
08:51جیتے رہو بیٹا
08:52یہ مقدس ہاتھ جانے کتنی بار
08:55انہوں نے میری پلوشہ کے سر پر بھی رکھا ہوگا
08:57سکون اور اتمنان میرے رگو پہ میں اتر گیا
09:00میں ممنونیت بھرے لحظے میں بولا
09:02یہ شفقت بھرا ہاتھ کبھی بھی میرے سر سے نہ ہٹانا ماجی
09:05فوجی کی عام دنوں کی چھٹی پر لگا کر گزرتی ہے
09:08مگر اب پلوشہ کی جدائی میں
09:10میرا ہر دن صدیوں کی مسافت پر مشتمل ہو گیا تھا
09:13اس کے باوجود چھٹی کے تین ماہ بیچ چکے تھے
09:15میں واپس یونٹ پہنچا
09:17دوست احباب ایک بار پھر تسلی دینے
09:19اور حوصلہ بڑھانے میرے گرد اکٹھے ہو گئے
09:21سردار بھی یونٹ واپس پہنچ چکا تھا
09:24ایک بار وہ میرے گھر بھی آ چکا تھا
09:25لیکن نامعلوم کیوں میں نے اس سے بات چیت کرنا
09:27بلکل ہی چھوڑ دیا تھا
09:29وہ کئی بار اپنے ناکردہ جرم کی معافی مانگ چکا تھا
09:32مگر میں خاموش رہ کر
09:33اس کی ہر کوشش کو نظر انداز کر دیتا
09:35اس کی ٹانگ کا پلستر اتر چکا تھا
09:37لیکن ابھی تک وہ مکمل طور پر
09:39صحتیاب نہیں ہو سکا تھا
09:40یونٹ واپسی کے دو تن دنوں تک
09:42مجھے کسی نے نہیں چھیڑا
09:43ایک رات مجھے حکم ملا
09:44کہ اگلے دن میری کماننگ آفیسر کے سامنے پیشی ہیں
09:47صبح نو بجے میں کماننگ آفیسر کے دفتر میں
09:49ان کے سامنے کھڑا تھا
09:51انہوں نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کر کے
09:52سب سے پہلے پلوشہ کی موت کی تازیت کی
09:55اور اس کے بعد بتایا
09:56کہ چونکہ انہیں ہائی کماننگ کی طرف سے
09:58سختی سے مجھے سزا سنانے کا حکم ملا تھا
10:00اس وجہ سے انہوں نے میری حوالداری کا رینک توڑ کر
10:03مجھے دوبارہ سپاہی بنا دیا تھا
10:05مجھے نہ تو رینک کا شوق تھا
10:06اور نہ میں مزید نوکری کرنا چاہتا تھا
10:09اس لیے میں نے موت دبانہ لہجے میں کہا
10:10سر میں ڈسچارج ہونا چاہتا ہوں
10:12کیونکہ اب میں خود کو مزید باک آرمی کی خدمت کے لیے
10:15قابل نہیں سمجھتا
10:16وہ بولے شاید تم رینک ٹوٹنے کی وجہ سے دل گرفتا ہو
10:19اگر ایسا ہے تو فکر نہ کرو
10:20ایک سال کے اندر میں تمہیں دوبارہ حوالدار بنوا دوں گا
10:23لیکن فلحال تمہارا رینک توڑنا ضروری تھا
10:25کیونکہ نادانستگی میں ہی سہی
10:27تم آرمی کا قانون توڑنے کے مجرم ہو
10:30میں نے کہا نہ تو مجھے اپنے جرم سے انکار ہے
10:32اور نہ مجھے رینک کا ہی شوق ہے
10:33بس میں خود کو نوکری کرنے کے قابل نہیں سمجھتا
10:36اس لیے بہتر ہوگا کہ مجھے باعثت ڈسچارج کر دیا جائے
10:39میں نوکری چھوڑنے پر مسر تھا
10:41وہ بولے جاؤ فلحال آرام کرو
10:43اور جتنی چھٹی کی ضرورت ہو لے لو
10:45اس بارے میں بعد میں بات کریں گے
10:47انہوں نے میری خواہش پر ذرا بھی دلچسپی کا اظہار کیے
10:49بغیر مجھے جانے کا اشارہ کیا
10:51اور میں سلیٹ کر کے ان کے دفتر سے نکل آیا
10:53گھنٹے ڈیڑھ کے بعد ہی
10:54استاد راو تصور صاحب
10:56استاد فیاض
10:57استاد بدرودی ناوان
10:58استاد اشفاق تنولی
11:00اور میرے دوسرے استادوں نے مجھے گھیرا ہوا تھا
11:02تمام نے کھل کر میرے فیصلے کو رد کیا
11:05اور بجائے منت کے یہ حکم دیا
11:06کہ اگر میں نے ڈسچارج ہونے کی باقاعدہ درخواست دی
11:09تو وہ درخواست فوج سے ڈسچارج ہونے کی نہیں
11:11ان سے تعلق توڑنے کی درخواست ہوگی
11:13اپنے ان استادوں سے میرا تعلق ایسا نہیں تھا
11:16کہ میں ان کا حکم ٹال سکتا
11:17انہیں مجھ پر کوئی مان تھا
11:19تو انہوں نے منت کی بجائے دھونس تھمکی سے کام لیا
11:21میں نے ان کے حکم کے آگے خاموشی سے سر جھکا دیا
11:24شام کو حوالدار میجر نے مہینہ چھٹی میرے حوالے کر دی
11:28جو میں نے شکریہ کے ساتھ واپس لوٹا دی
11:30گھر جا کر میں پلوشہ کی یادوں سے مقابلہ نہیں کر سکتا تھا
11:33جبکہ وہاں تمام دن اور رات کا بیشتر حصہ
11:36دوست احباب کی میت میں گزرتا
11:38اس لیے دشمن جان کی یادوں سے کچھ حفاقہ ہوتا
11:40ورنہ تو وہ ہر لمحہ میرے پاس ہی موجود رہتی
11:43اسے ہمیشہ مجھ سے بچھڑنے کا خوف ستاتا رہتا
11:46مجھ سے دور جانے کے خیال سے وہ اکثر رات کو اٹھ کر مجھ سے لپڑ جاتی
11:50یوں گویا اسے میں نے ہی چھوڑ کر جانا ہے
11:52وہ کبھی ایسا کام نہیں کرے گی
11:54اور جب وقت آیا تو خود ہی سارے وعدے اور قسموں کو پاؤں کی ٹھوکر میں اڑا کر
11:58اتنی دور چلی گئی
11:59جہاں تک میری سوچ کی رسائی بھی ممکن نہیں تھی
12:02ایک بار اس نے میری گود میں سر رکھ کر ایک نظم گنگنائی
12:05اگر کبھی میری جادہ آئے
12:06تو چاند رات کی نرم دلگیر روشنی میں
12:09کسی ستارے کو دیکھ لینا
12:11اگر وہ نخلے فلک سے اڑ کر تمہارے قدموں میں آگرے
12:14تو یہ جان لینا کہ وہ میرا دل تھا
12:16اگر نہ آئے
12:17مگر یہ ممکن ہی کس طرح
12:19کہ تم کسی پر نگاہ ڈالو اور اس کی دیواریں جانا ٹھوٹے
12:23وہ اپنی ہستی نہ بھول جائے
12:24اگر کبھی میری جادہ آئے
12:26گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
12:29میں جنبشوں میں تمہیں ملوں گا
12:31تم عوث قطروں کے آئینوں میں تلاش کرنا
12:34گریز کرتی ہوا کی لہروں پہ ہاتھ رکھنا
12:37میں خوشبووں میں تمہیں ملوں گا
12:39مجھے گلابوں کی پتیوں میں تلاش کرنا
12:41میں عوث قطروں کے آئینوں میں تمہیں ملوں گا
12:45اگر ہواوں میں خوشبووں میں عوث قطروں کے آئینوں میں
12:48مجھے نہ پاؤ تو اپنے قدموں میں دیکھ لینا
12:51میں گردھوتی مسافتوں میں تمہیں ملوں گا
12:54کہیں پہ روشن چراخ دیکھو تو جان لینا
12:56کہ ہر پتنگے کے ساتھ میں بھی بکھر چکا ہوں
12:59تم اپنے ہاتھوں سے ان پتنگوں کی راکھ دریا میں ڈال دینا
13:03میں خاک ہو کر سمندروں میں سفر کروں گا
13:06کسی نہ دیکھے ہوئے جزیرے پہ رکھ کے تم کو صدائیں دوں گا
13:10سمندروں کے سفر پہ نکلو
13:12تو اس جزیرے پہ بھی اترنا
13:14اگر کبھی میری جات آئے
13:15نہ جانے وہ کس جزیرے پہ رکھ کر مجھے صدائیں دے رہی تھی
13:19کہ اس کی صدائیں میری سماعتوں تک نہیں پہنچ پا رہی تھی
13:22تربیتی مشکیں فوج کی روز مر رہے ہیں
13:24ذہن بٹانے کے لیے میں بھی تربیتی مشکوں میں حصہ لینے لگا
13:28نئے سنائپر کو تربیت دے کر میں گویا
13:30استاد کے درجے پر ترقی پا گیا تھا
13:32میرے عملی تجربات ایسے تھے
13:34کہ استاد تصور بھی مجھ سے مشورہ لے کر
13:36میری عزت افزائی کرتے
13:37دن بھر کی سخت تربیتی مشکوں کے بعد
13:39رات کو اچھی خاصی نیند آتی
13:41البتہ کبھی کبھار پلوشہ میرے خوابوں کو رونک بخشنی آ جاتی
13:45ایک رات وہ میرے خواب میں آئے تو خفا تھی
13:47میں نے پوچھا کیا ہوا جندہ
13:48اس کی ناراضی بھری نگاہوں کتاب لانا میرے لیے ناممکن تھا
13:52وہ بولی آپ میرے سردار بھائی سے کیوں خفا ہیں
13:54میں نے کہا تمہیں نہیں معلوم
13:56وہ بولی اس میں ان کا کیا قصور ہے
13:57میں نے کہا اگر اس نے تمہیں گھر واپس بھیج دیا ہوتا
14:00اور اکیلا میری بے گناہی کے ثبوت ڈھوننے جاتا
14:11میں نے کچھ کہنا چاہا مگر
14:13وہ بولی چھوڑیں اگر مگر کو
14:15اور ابھی ابھی اٹھ کر ان سے خفگی دور کریں
14:17اس کے ساتھ ہی میری آنکھ کھل گئی تھی
14:19کمرے میں چلنے والے پنکھے اور ائر کولر
14:22اگست کی گرمی سے لڑنے کی ناکام کوشش میں مصروف تھے
14:24میں نے اٹھ کر چاروں طرف نگاہ دوڑائی
14:26سردار کی چارپائی مجھ سے دین چارپائیوں کی فاصلے پر پڑی تھی
14:30کروٹوں کا تسلسل اس کے جاگنے کو ظاہر کر رہا تھا
14:33ہاتھ والا پنکھا تکیہ کے نیچے سے نکال کر
14:35میں اس کی چارپائی کی طرف پڑ گیا
14:37دیوار سے ٹنگی گھڑی رات کے دو بجنے کا اعلان کر رہی تھی
14:40اس کی چارپائی کے سامنے رکتے ہوئے میں دھیمے لہجے میں بولا
14:43اگر نیند نہیں آ رہی تو باہر چلتے ہیں
14:46میرے اندازے کے مطابق وہ جاگ ہی رہا تھا
14:48فوراں اٹھ بیٹھا
14:49پاؤں میں چپل ڈالتے ہوئے وہ اتمنان بھرے لہجے میں بولا
14:52اچھا مشورہ ہے
14:53ہم دونوں لون میں بینچ پر بیٹھ گئے تھے
14:56سردار میرے ماضی کے رویے کا ذکر کیے بغیر
14:58یوں گپ شپ کرنے لگا
14:59جیسے ہمارے درمیان کچھ ہوا ہی نہیں
15:01بولا تمہارا بتیجہ سلطان بہت شرارتی ہو گیا ہے
15:04اب اسے نئی ماں کی ضرورت پہلے سے زیادہ ہے
15:06میں نے کہا حسین تم نے لی زونہ کا ذکر کیا تھا
15:09اس نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا
15:10پرسوں آ رہے ہیں
15:11میں بھی کل چھٹی لے کر جا رہا ہوں
15:14میں نے پوچھا شادی کے بارے میں کیا سوچا ہے
15:15وہ ہستے ہوئے بولا دس دنوں کی چھٹی جا رہا ہوں
15:18کوشش یہی ہوگی کہ کوئی دن زائع نہ جائے
15:21میں نے کہا کیوں ائرپورٹ پر نکاح خان کو بھی ساتھ لے کر جاؤ گے
15:24وہ بولا نہیں وہ گھر میں بیٹھ کر ہمارے آنے کا انتظار کریں گے
15:27میں نے کہا اس کا مطلب مجھے بھی اپنی چھٹی کا بتا دینا چاہیے
15:30وہ اتمنان سے بولا میں بتا چکا ہوں
15:32میں نے حیرانی سے پوچھا کب
15:33وہ بولا آج ہی حوالدار میزر کو بتایا ہے
15:36کیونکہ میں جانتا تھا کہ لی زونہ کی آمد کا سن کر تم ضرور میرے ساتھ چلو گے
15:39میں نے اس بات میں سر ہلایا صحیح کہا
15:42ہم گھنٹا ڈیڑ وہیں بیٹھے گپے ہانکتے رہیں
15:44اور پھر مچھروں کی مسلسل جلغار سے تنگ آ کر وہ بیرک میں گھس گیا
15:48جبکہ میں وہیں بیٹھا رہا
15:49سردار خان ایک مخلص دوست تھا
15:51اس نے میرے پچھلے دنوں کے رویے کو بالکل نظر انداز کر دیا تھا
15:55بیٹھے بیٹھے اچانک میرے دماغ میں جینی کا خیال ابرا
15:57میں نے کلائی سے بندھی گھڑی پر نگاہ دوڑائی
16:00صبح کے چار بج رہے تھے
16:01گویا ان کے پاس شام کے چھ سات بجے کا وقت ہونا چاہیے تھا
16:04کیونکہ نیو یارک کا وقت ہم سے قریباً نو گھنٹے پیچھے ہیں
16:08میں نے آنکھیں بند کر کے اپنی یاداشت کھنگالی
16:10ذرا سی کوشش سے اس کا نمبر مجھے یاد ہو گیا تھا
16:13موبائل فون نکال کر میں اس کا نمبر ڈائل کرنے لگا
16:16دو تین گھنٹیوں کے بعد کال وصول کر لی گئی
16:18میں نے اس کی حیرانی بھری ہیلو کے جواب میں پوچھا جینی کیسی ہو
16:22اس نے مجھے پہچاننے میں ایک لمحہ بھی نہ لگایا
16:24زی شکر ہے تمہیں میری یاد آگئی
16:27جانے کب سے تمہاری کال کا انتظار کر رہے ہوں
16:29تمہیں اپنی شادی پر بولانا تھا مگر تمہاری کال ہی نہ آئی
16:32مجبوراً مجھے تمہارے بغیر ہی شادی کرنا پڑی
16:34مہینہ ہو گیا ہے میری شادی کو
16:36وہ پرجوش لہجے میں بولتی گئی
16:38میں نے اس کے نام کو مزید مختصر کرتے ہوئے کہاں مبارک ہو جی
16:41وہ بولی شکریہ جی
16:42میں نے پوچھا اچھا کیسا ہے وہ
16:44بولی بہت محبت کرتا ہے اتنا خیال رکھتا ہے
16:46کہ بتا نہیں سکتی اس وقت بھی
16:48باورچی خانے میں بھوسا رات کا کھانا بنا رہا ہے
16:50میں نے کہا اس لئے تو کہتا تھا
16:52کہ کسی ہم مذہب اور ہم تہذیب سے شادی کر لو
16:55مزے کرو گی وہ بولی زی میں
16:56اس موضوع پر بات نہیں کرنا چاہتی اور
16:58اتنا تو تم جانتے ہو کہ میں کیا کہنا چاہتی تھی
17:01اور سچ کہوں تو میری دلی تمنہ
17:02اب بھی وہی ہے میں نے کہا اگر باورچی خانے
17:05میں کھانا بنانے والے شوہر صاحب نے
17:06تمہاری بےہودہ بات سن لی تو دیکھ چاہ
17:08تمہارے سر پر دے مارے گا وہ بولی
17:10اسے میں تمہارے بارے میں سب کچھ بتا چکی ہوں
17:13وہ تمہاری اس آفت کی پرکالہ کی طرح نہیں
17:15اس نے پلوشہ کا ذکر کرتے ہوئے
17:17گویا میرے دل کے زخم کو رہ دے
17:18بولی ویسے کیسی ہے اور کیا اسے
17:20معلوم ہے کہ تم مجھ سے بات کر رہے ہو
17:22میں اس کی بات کا کوئی جواب نہیں دے پایا تھا
17:24مجھے خاموش پا کر اس نے بیچینی سے پوچھا
17:27زی کیا ہوا خیریت تو ہے
17:28نہ جانے کیسے اسے میری خاموشی سے
17:30کسی گڑھ بڑھ کا احساس ہو گیا تھا
17:32بمشکل مختصر سے فطرہ میرے حلق سے برامت ہوا
17:35جینی وہ نہیں رہی
17:36وہ حیرانی سے چیخ پڑی کیا مطلب نہیں رہی
17:39میں نے کہا تمہیں بتایا تھا نہ
17:40کہ وہ میری بے گناہی کے ثبوتوں کے حصول
17:42کے لیے مجھ سے پہلے نکلی تھی
17:43بس اسی کوشش میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھی
17:46اور جانتی ہو مرنے سے دو تین دن پہلے
17:48وہ تمہیں تلاش کرنے کی کوشش کر رہی تھی
17:50کیونکہ اسی یقین تھا کہ تم اس کی مدد ضرور کرو گی
17:53وہ بولی میں اس کی مدد ضرور کرتی زی
17:55وہ بہت پیاری تھی
17:56سچ کہوں تو مجھے بہت اچھی لگتی تھی
17:58وہ اس قابل تھی کہ اسے چاہا جاتا
18:00جینی کی آواز میں شامل دکھ مسنوعی نہیں تھا
18:03میں نے کہا اچھا چھوڑو اس کی ذکر کو
18:05کوئی اور بات کرو
18:06وہ خلوص بھرے لہجے میں بولی زی
18:08اگر کہو تو میں تمہارے پاس آ جاتی ہوں
18:10یا تمہیں امریکہ بلوالتی ہوں
18:12اور یقینا میں اب بھی اپنے شوہر کو طلاق دے سکتی ہوں
18:15میں نے کہا جینی میں جانتا ہوں
18:16کہ تم مجھے دل کی گہرائیوں سے چاہتی ہو
18:18اور اس میں بھی کوئی شک نہیں
18:20کہ مجھے بھی تم اتنی ہی پیاری ہو
18:22لیکن اپنے تعلق کے بارے میں
18:23تمہیں پہلے بھی تفصیل سے بتا چکا ہوں
18:25تم ہمیشہ میری بہت اچھی دوست رہو گی
18:27ایسی دوست جسے میں بہت زیادہ محبت کرتا تھا
18:30اور ہمیشہ کروں گا
18:31اس نے عجیب سے لہجے میں پوچھا زی
18:33تم اس کے لیے بہت زیادہ روتے ہونا
18:34میں نے پھیکی مسکراہت سے کہا
18:36نہیں بس کبھی کبھی
18:37وہ بولی اچھا یاد آیا
18:39تم نے بیچارے نکسٹوئرٹ کے ساتھ اچھا نہیں کیا
18:41میں نے کہا تم تک یہ بات پہنچ گئی تھی
18:43وہ بولی جب اسے گولی لگنے کی بات
18:45مجھ تک پہنچی
18:46میں سمجھ گئی تھی کہ یہ زی کا کام ہے
18:48بعد میں لارا براؤن سے بھی ملاقات ہوئی تھی
18:50اور اس نے تصدیق کی کہ نکسٹوئرٹ
18:52ایس ایس کی گولی کا نشانہ بنا ہے
18:54وہ تم سے بہت متاثر نظر آ رہی تھی
18:56جب اسے میرے اور تمہارے تعلق کے بارے میں معلوم ہوا
18:58تو کافی دیر تمہارے بارے میں گپ شپ کرتی رہی
19:01یہ کہتے ہوئے اس نے ہستے ہوئے پوچھا
19:03ویسے اسے کس خوشی میں زندہ چھوڑ دیا
19:05مجبوراً میں نے اسے زندہ چھوڑنے کی وجہ بیان کر دی
19:07پولی بہرحال وہ کسی اور خوش فہمی میں تھی
19:10میں نے شرارتی لہجے میں پوچھا
19:12ویسے دکھنے میں کیسے ہیں
19:13وہ فوراں بولی مجھ سے خوبصورت ہے
19:15میں اعتماد سے بولا یہ تو سرسر چھوٹ
19:18اس نے عجیب سے لہجے میں پوچھا کیوں
19:20مجھ سے کوئی لڑکی خوبصورت نہیں ہو سکتی
19:21میں نے کہا ہاں وہ بولی کیا پلوشہ بھی نہیں
19:24میں نے ناراض لہجے میں اسے جھڑکا
19:26اس کا ذکر کرنا ضروری تھا
19:27وہ فوراں بولی معافی جاتی ہوں
19:29اور لورا کا نمبر میرے پاس موجود ہے
19:31اگر بات آگے بڑھانا ہو تو
19:33یقیناً مزاہیہ انداز اپنا کر
19:35وہ پلوشہ کے دل فگار تذکرے کا کفارہ
19:38ادا کرنا چاہ رہی تھی
19:39میں اتمنان سے بولا تمہارا فون نمبر میرے پاس موجود ہے
19:42اور میرا خیال ہے اس کے علاوہ
19:44مجھے کسی کے فون نمبر کی ضرورت نہیں
19:45وہ بولی چلو اپنا خیال رکھنا زی
19:47میں نے کہا ہاں تم بھی
19:49اب نماز کا وقت ہو گیا ہے
19:50میرا یہ نمبر محفوظ کر لینا
19:52اور اس پر جب چاہو کال کر سکتی ہوں
19:53وہ بولی ٹھیک ہے زی
19:54گوڈ بائی
19:55اپنا بہت بہت خیال رکھنا
19:57اور ہو سکے تو تم بھی شادی کر لو
19:59یقیناً تمہیں سنبھالنے کے لیے
20:00ایک عورت کی ضرورت ہے
20:02میں نے کہا اتنے قیمتی مشورے پر شکر گزار ہوں
20:04اور میں نے رابطہ منقضہ کر دیا
20:06آزان کافی دیر کی ہو چکی تھی
20:08میں اٹھ کر مسجد کی طرف چلا گیا
20:10تو دوستو یہ تھی ہماری آج کی اپیزورڈ
20:13امید کرتے ہیں آپ کو ہماری کہانی پسند آئی ہوگی
20:15جانے سے پہلے اس ویڈیو کو لائک کیجئے
20:17اور شیئر کرنا مت بھولئے
20:19کومنٹ کر کے ہمیں بتائیے
20:20کہ آپ کو ہماری ویڈیو کیسی لگی
20:22اور اگر ابھی تک آپ نے اس چینل کو سبسکرائب نہیں کیا
20:25تو اسے سبسکرائب کیجئے
20:26اور پہلے آئیکن دبا کر
20:27all notifications on کر لیجئے
Recommended
20:30
|
Up next