Skip to playerSkip to main contentSkip to footer
  • 7/25/2025
#cousin_marriage #sairastories #bold_romantic #audionovelurdu #digitalbookslibrary #urdunovel #loveurdunovel #novelinurdu #novels #romanticnovel

#pakeezahstory
#urduromanticnovelonforcedmarriage
#audionovelurdu #digitalbookslibrary #khanstudio #novelpoint #novelwalibaji #sairastories #yamanevanovel #novels
#simislife
#sairastories

#UrduRomanticNovel
#UrduKahani
#Novels
#Simislife
#khuwabonkajahan #romanticnovel #romanticurdunovel #urdunovel #cousin_marriage #bold_romantic #novelinurdu #loveurdunovel #ytstudo #viralurdunovel2024 #newurdinovel
#conpletenovelromantic
#hearttouchingnovelsinurdu

"Copyright Disclaimer under Section 107 of the copyright act 1976, allowance is made for fair use for purposes such as criticism, comment, news reporting, scholarship, and research. Fair use is a use permitted by copyright statute that might otherwise be infringing. Non-profit, educational or personal use tips the balance in favour of fair use.

pakeezah stories, moral stories, emotional stories, real sachi kahaniyan, heart touching stories, romantic stories, love stories, true story, written story, text story, new moral story, top urdu kahani, digest stories, bed time stories, soothing voice story, short stories, saas bahi kahaniyan, suvichar kahaniyan, achay vichar kahani, kahani ghar ghar ki, daily stories, teen ortain teen kahaniyan, 3 ortain 3 kahaniyan, hindi motivational stories, voice, Chota Dulha, romantic novels, romantic novels in urdu, urdu novels, urdu novel, romantic urdu novels, urdu romantic novels, romance novels in urdu, story, urdu story, story in urdu, love, love story, love story in urdu, romantic novels to read, urdu romantic novel, novels, novel, hindi stories, hindi kahani, hindi story, most romantic novels, best urdu novels
urdu novels online
read urdu novels online
novels point
Gold Studio, Jannat ka pattay, Novel Point, Novel ka khazana, Urdu Complete Noval, Urdu Novel Platforn, Urdu Novel World, Urdu Novel library, Urdu novel Bank, Urdu novel shiddat e Ishq, Urdu novel story, best urdu novels, novel TV, novel addiction, novel by noor asif, novel forever, novel library, novel urdu library, novels in urdu, romantic novels in urdu, romantic urdu novels, sabaq Amooz kahanian, top urdu novels, urdu novel World, urdu novels, urdu novels online

#khuwabonkajahan #romanticnovel #romanticurdunovel #urdunovel #cousin_marriage #bold_romantic #novelinurdu #loveurdunovel #ytstudo #viralurdunovel2024 #newurdinovel
#pakeezahstory #audionovelurdu #khanstudio #novelwalibaji
#digitalbookslibrary
#novelpoint
#yamanevanovel
#sairastories
#vanibased
#forcemarriagebasednovel
#agedifferencebased
#vanibasednovels
#cousin_marriage
Transcript
00:00:00اسلام علیکم ویورز کیسے آپ سب لوگ آئی ہوپ کہ آپ سب لوگ بلکو ٹھیک ہوں گے اور اپنی لائف میں خوش بھی ہوں گے تو آئیے شروع کرتے ہیں
00:00:08اپنا نوول کی نیکس اپیسوڈ نوول کا نام ہے انتہائی عشق اور اس کو لکھا ہے عریج شانے اور اس کی اپیسوڈ ہے
00:00:19اپیسوڈ بنتی ہے اس کی تو چلیے آئیے شروع کرتے ہیں آج کی نیکس اپیسوڈ
00:00:25اب کمبخت ہے اب کون کمبخت ہے جسے رات کو بھی سکون سے نیند نہیں آتی
00:00:32اس نے فون کان سے لگاتے ہوئے غصے سے بھرپور آواز میں کہا جبکہ شارک اس کی آواز پر ہانس پڑا
00:00:38مجھے پتہ نہیں تھا کہ تم سو رہی ہوگی اس کی آواز پر وہ فورا آنکھیں کھول کرنے سے پہچاننے کی کوشش کرنے لگی
00:00:45دماغ پر زیادہ زور مت ڈالو میں خان بات کر رہا ہوں شارک نے مسکراتے ہوئے کہا کون خان
00:00:51اسے تو ہوش میں انسان جاد نہیں رہتا تھا کہاں وہ سوتے ہوئے کسی کو یاد کرتی
00:00:55تمہارا ایک قدد اکلوتا منگیتر بلکہ نہیں تمہارا نہیں آپ کا کہنا چاہیے
00:01:03اتفاق سے پورا ایک دن بڑی ہو تم مجھ سے مسکراتے ہوئے بولا تھا آج جازم اس کے ہوش چل آیا تھا
00:01:09اور کسی کام کے لیے اسے اپنے آئیڈی کار کی فوٹو کپی چاہیے تھی
00:01:15بھائی کے ساتھ ہی کام کرتا ہے یقینا وہی وہی اس نے دیکھ لیا ہوگا اس کا آئیڈی کار
00:01:21اس لڑکے کا خوبصورت چہرہ یاد کرتے ہوئے اسے گبر یاد آتا تھا کیونکہ وہ اس کی دنیا میں
00:01:26گبر کی جگہ لینے جا رہا تھا چل اچھی بات ہے آج سے تم مجھے آپ اور میں تمہیں تم کہہ کر
00:01:32پکاروں گی اور آئندہ جب تک میں نہ کہوں مجھے فون مس کرنا مجھے اس طرح ترچانک فون پر بات کرنا
00:01:38ہر گرد پسند نہیں ہے فیل حال میں سو رہی تھی تو آئندہ کوشش کرنا کہ رات نومٹے کے بعد
00:01:43تو مجھے فون بھی ناکی کرو ویسے میرا نمبر کس نے دیا جازم نے نہیں دیا ہوگا وہ اس سے
00:01:49سوال کر کے خود ہی جواب دے چکی تھی بلکہ ایسا کرنا کہ آئندہ تم مجھے فون ہی نہیں کرنا
00:01:55بہتر ہوگا کہ ہم جو بھی بات کریں شادی کے بات کریں اگر شادی ہوئی تو گوڈ نائٹ آئندہ احتیاط کرنا
00:02:01خدا حافظ وہ بینہ اسے بولنے کا موقع دیا فون بند کر چکی تھی اپنے کان کے
00:02:07قریب فون کی ٹون پر شارک خاصا بدمزہ ہوا تھا ایک دن بڑی ہے مجھ سے اور حکم
00:02:12جیسے چلا رہی ہے جیسے دس سال بڑی ہو بڑی آئی بسند وہ کہتے ہوئے اپنی زبان
00:02:18کو لگام دے گیا اس سے دروازہ کھڑکٹ آیا تو اگلے ہی منٹ دروازہ کھل چکا تھا وہ ہاتھوں
00:02:27سے اپنے آپ کو پنکھا کرتے ہوئے مرچی کم کھانے کی کوشش کر رہا تھا جی یہ میں نے
00:02:32بنائی ہے آپ کے لیے میں نے اس سرخ مجھ کا زیادہ استعمال کیا تھا اس لیے پانی سے
00:02:37جلدی نہیں جائی اور آپ نے اتفاق سے پانی بھی نہیں پیا ہے اس نے ٹیبل پر پانی
00:02:42کا بھرا وہ جگھ دے کر کھا جبکہ اس کے لہجے میں شرمندگی محسوس کر کے وہ
00:02:46مسکرا دیا اگر پانی پی لیتا تو شاید یہ کھیر نہیں ملتی وہ مسکراتے ہوئے اس کے
00:02:51ہاتھوں سے کھیر لے چکا تھا جبکہ وہ اس کے بعد بھی کمرے سے نہیں گئی تھی
00:02:56آپ کو کیسا محسوس ہو رہا ہے شاید وہ اس سے معافے مانگنے کے لیے اپنی شرارت کی
00:03:00گہرائی تک جانا چاہتی تھی بہرام نے ایک نظر اس کی طرف دیکھا اور کھیر کے
00:03:04پیالے کو سائٹ ٹیبل پر رکھ دیا وہ حیرانگی سے دیکھ رہی تھی آخر اس نے کیوں
00:03:08نہیں گئی وہ اتنی محنت سے اس کے لیے بلنا کر لائی ہے ابھی وہ اسے دیکھ رہی تھی
00:03:13جبکہ اس کی حیرانگی کو اگرون کرتے ہوئے بہرام نے اگلے ہی لمحے اس کا
00:03:17بازو کھینچ کر اسے اپنے بلکل نزدیک کر لیا اور اس سے بینہ کچھ سوچے
00:03:22سوچنے سمجھنے کا موقع دی اپنے ہونٹوں کے اس کے لبوں پر رکھ دی اس کے
00:03:27انداز میں نرمی تھی لیکن اس کے باوجود بھی دل کو اپنی جان جاتی محسوس ہوئی
00:03:32اس سے وہ اتنی بے باقی امید کبھی نہیں رکھتی تھی دل نے اس کے سیٹے پر ہاتھ
00:03:37رکھ کر اسے خود سے دور کرنے کی کوشش کی لیکن بہرام وہ ہی ہاتھ
00:03:41تھام کر اسے اسی کے پیٹ پیٹ کے پیچھے لے گیا دل کی ساری مضاہمتیں
00:03:48بیکار جا رہی تو وہ اس سے خود سے جتنا دور کرتی وہ اس کے اتنے ہی
00:03:52قریب ہوتا چلا جا رہا تھا دل تو اپنا سانس رکتا وہ محسوس ہونے لگا
00:03:56جت پر اس کی مضامت مزید تیز ہو گئی لیکن بہرام کو تو جیسے دنیا جہان کا
00:04:00ہوش ہی نہیں تھا وہ مکمل بد ہوش ہوئے مد ہوش ہوئے اس کے لبوں سے
00:04:05اپنے لبوں کی پیاز بجھا رہا تھا جب دل نے اسے دھکا دے کر خود سے
00:04:09دور کیا بہرام کی نظر میں خمار کے ساتھ شرارت بھی تھی اب کیسا
00:04:14محسوس ہو رہا ہے شاید وہ اپنی جلن اس کے اندر منتقل کر چکا تھا
00:04:17دل نظریں جکائے باہر کی جرف جانا چاہتی تھی لیکن افسوس کے ہاتھ
00:04:23اب بھی بہرام کے ہاتھ میں تھا اس کی نظریں ملانا اب اس کے بس سے باہر تھا
00:04:26جب بہرام نے کھیر کا ایک چمر بھرتے ہوئے اس کے موں میں ڈال دیا
00:04:30مجھے تو میری مزچی ختم کرنے کا بہت اچھا طریقہ مل گیا ہے
00:04:33اسی لیے یہ کھیر اب تمہارے ہی کام آئے گی وہ کھیر کا پیالہ اس کے ہاتھ میں
00:04:37رکھتے ہوئے بولا جبکہ اس کا ہاتھ چھوڑتے ہی وہ کھیر کا پیالہ لے کر
00:04:41کمرے سے باہر بھاگے جانو سائن اور دائم گھر واپس آ چکے تھے جانو سائن
00:04:47یہاں ملتان واپس آ کر بہت خوش تھی کیونکہ یہاں آتے ہی اسے ایک ماں
00:04:50مل گئی تھی بڑی امہ سائن کے روپ میں لیکن یہاں آتے ہی ایک بار پھر سے
00:04:55دائم جیسے اسے بلکل ہی بھول گیا اسے یہاں لاتے ہی وہ اپنے کام میں
00:04:59مصروف ہو چکا تھا اسے بڑی امہ سائن کے ساتھ چھوڑ کر وہ بلکل بے فکر ہو
00:05:04چکا تھا اور بڑی امہ سائن کو تو جیسے کوئی گڑیا مل گئی تھی ان کے دائم کی
00:05:08شہزادی جیسے وہ بلکل شہزادیوں کے جیسے ہی ٹریٹ کر رہی تھی کبھی کبھی
00:05:12ان کے بار بار صدقے وارے جانے پر وہ شرماتے ہوئے ساتھ جھکا دیتی
00:05:17جبکہ اس کے اس طرح سے شرمانے پر وہ مزید اسے دعائیں دیتی اور نظر
00:05:22ازارتی لیکن دائم سے وہ پھر سے خفا ہو چکی تھی آخر دائم اس کے ساتھ ایسا
00:05:27کیسے کر سکتا ہے وہ اسے یہاں لاکت جیسے بھول گیا اب تو وہ اس سے کبھی بات
00:05:31نہیں کرے گی اس نے فیصلہ کر لیا تھا لیکن وہ تو تب ہوتا ہے جب وہ
00:05:36گھر پر آتا ہو آج تین دن گزر چکے تھے وہ نہ جانے کہاں جلسوں میں
00:05:40مصروف تھا کہ گھر واپس آنے کی بھی توفیق نہ ہوئی جس پر جانوں سائن کے
00:05:44غصے میں مزید اضافہ ہو گیا اب اس نے فیصلہ کیا تھا کہ دائم چاہے اس کے پیر
00:05:48ہی کیوں نہ پکڑ لے وہ اس سے بات نہیں کرے گی آخر کوئی اپنی معصوم سی بیوی
00:05:53کے ساتھ ایسا کرتا ہے ٹھیک ہے اس نے بڑی اممہ سائن سے کہا تھا کہ اب
00:05:57آپ ہی یہاں پر تو مجھے جانوں سائن کی فکر کرنے کی ہرگز کوئی ضرورت
00:06:01نہیں کیونکہ مجھے پتا ہے کہ آپ اس کا بہت خیال رکھیں گے لیکن وہ اس کی
00:06:05بیوی تھی وہ اسے اس طرح سے تھوڑی نہ کر سکتا تھا اس نے تو بڑی اممہ سائن کے
00:06:10سامنے بھی کہہ دیا کہ میں آپ کے بیٹے سے بات کرنے کا بلکل کوئی راضہ نہیں
00:06:14رکھتی پکی ناراض ہو چکی ہوں اور اس کی ناراضگی کو دیکھتے ہوئے ہی
00:06:18بڑی اممہ سائن نے دائم کو فون کر کے اس خفا مور کے بارے میں بتایا تھا
00:06:23جس پر اس نے کل ہی واپس آنے کا وعدہ کیا تھا ویسے تو اسے بہت کام تھا
00:06:27لیکن جانوں سائن کے ناراضگی وہ کسی حال میں مول نہیں لے سکتا تھا
00:06:31اسی لیے اس نے بڑی اممہ سائن سے کہا تھا کہ وہ کل گھر واپس آئے گا
00:06:35بڑی اممہ سائن نے یہ بات فوراں ہی جا کر جانوں سائن کو بتائی
00:06:39پہلے تو وہ خوش ہو کر چیک کی لیکن پھر یاد آ گیا کہ میں ناراض ہوں
00:06:43اور اس کے ایک ایک سیکنڈ کی خبر بینہ کسی رکاور کے دائم شاہ تک پہنچ جاتی تھی
00:06:48اور اسے پتا تھا کہ اس کی ناراضگی اور اس کے واپس آنے کی خبر پر کوئی رسپونس نہ دینا بھی
00:06:53اس تک پہنچ چکا تھا نہ جانے کیوں اس شخص کو نقرے دکھاتے ہوئے
00:06:57اس سے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے جانوں سائن کو بہت مزہ آتا تھا
00:07:01وہ چاہتی تھی کہ وہ اس سے روٹھی رہے اور وہ اسے مناتا رہے
00:07:04اور اس کی خواہش کو وہ دل و جان سے پورا کرتا رہے
00:07:07شازم کب سے کمرے میں اس کا انتظار کر رہا تھا لیکن وہ کسی موڑ میں تھی
00:07:12کہ ابھی تک کمرے میں ایک عظم نہ رکھا
00:07:14تائشہ جو رات کے برتن دھو رہی تھی اس سے زبردستی برتن لے کر کمرے میں بھیئی دیا
00:07:19شازم کو تنگ کرنے کے لیے
00:07:20تو اسے ویسے بھی بس مہانے کی ہی ضرورتی اور وہ جانتی تھی
00:07:24اور پانچ منٹ کے بعد وہ اس کے ساتھ کیچن میں ہی کھڑا ملے گا
00:07:28اور اس کے اندازے کے این مطابق اگلے پانچ منٹ میں وہ بیزار سی شکل بنا کر
00:07:32کیچن کے دوازے میں کھڑا اسے گھر رہا تھا
00:07:35انہیں سب کاموں کے لیے تم سے شادی کی ہے میں نے
00:07:37وہ کیا ہے نا مجھے ایک نوکرانے کی ضرورتی
00:07:40جو رات کے بارہ بجے تک کے برتن صاف کرتی رہے
00:07:43اور باقی سارا دن آرام کرے
00:07:45جب اس کا شور گھر پہ نہ ہو
00:07:47اب اس بات سے تو وہ بھی انجار نہیں تھا
00:07:50کہ اس کی ماں کا حکم تھا
00:07:51کہ جب تک اس کی بہو کے ہاتھ کی مہندی نہ ہوتا جائے
00:07:54تب تک اس کو کوئی کام نہیں کرنے دے گی
00:07:57وہ تو ظاہلہ تھی جو زبردستی ان کے ساتھ کام کرتی
00:08:00جبکہ ذرش تو اپنے یہ دن خوب انجوئے کر رہی تھی
00:08:03اور آج بھی اس نے صرف شازم کو ہی تنگ کرنے کے لیے
00:08:06یہ برتن دھونے کا فیصلہ کیا تھا
00:08:08اللہ شازم سائیں آپ مجھ پر اتنا بورا الزام لگا رہے ہیں
00:08:11آپ کو کیا لگتا ہے
00:08:13میں آپ کو تنگ کرنے کے لیے یہ برتن صاف کر رہی ہوں
00:08:15ایسی لگتی ہوں میں آپ کو
00:08:17وہ انتہائی معصم شکل بنا کر اسے دیکھتے ہوئے بولی
00:08:20اس کی اوور ایکٹنگ پر شازم نے بقاعدہ تعلی بجا کر اسے داد دی
00:08:24اور اس بات میں سر ہلایا
00:08:26مطلب آپ کہنا چاہتے ہیں کہ میں ایک بوری بیوی ہوں
00:08:29اور آپ کا خیار رکھنے کی بجائے میں ان سب کاموں میں اپنا ٹائم ویسٹ کرتی ہوں
00:08:33زرش نے خدمے سے کہا جس پر اس کی اوور ایکٹنگ کو نظر انداز کرتے
00:08:36شازم نے پھر تھے اس بات میں سر ہلایا
00:08:39ٹھیک ہے اگر آپ کو یہی لگتا ہے نا تو پھر یہی تھے
00:08:43بیوی کی تو قدر ہی نہیں ہے
00:08:44اس گھر میں یا اللہ کہاں زارموں کے بیج میں بھیج دیا مجھے
00:08:48کہاں معصوم سی لڑکی کو ایسا ہٹلر ظالم کھڑوز شور
00:08:51جو بیوی پر بے بنیاد الزام لگاتا ہے پکڑا دیا
00:08:55اللہ پوچھے گا آپ کو شازم سائی روزے کیامت
00:08:58اس بات کا الگ سے حساب ہوگا
00:09:00وہ مزید اوور ایکٹنگ کرتی برطن کو سائیڈ پر رکھتے ہوئے بیڈروم میں جا چکی تھی
00:09:04جبکہ شازم بھی اس کی ایکٹنگ پر سائیڈ ہلاتا ہوئے اس کے پیچھے آیا
00:09:08اس سے پہلے کہ وہ اسے مزید نخرے دکھاتی
00:09:10وہ اسے کھینچ کر اپنے قریب کر چکا تھا
00:09:13اور بینہ اس کی مضاہمت کے پرواہ کیے
00:09:15اس کے گال کو انتہائی شدت سے چھوا جس پر وہ گلنار ہوئی
00:09:19اگر تمہاری اوور ایکٹنگ ہتم ہو گئی ہو
00:09:22تو کوئی کام کی بات کریں
00:09:23وہ اس سے اپنے قریب تر کرتے ہوئے
00:09:25اس کے بالوں کا خوبصورت آشانک کھولنے لگا
00:09:28یہ ضروری بات ہے آپ کی
00:09:29کیوں
00:09:30وہ اپنے بالوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی
00:09:32جس پر لازم کھل جس پر شازم کھل کر مسکرائیا
00:09:36اب اس سے زیادہ ضروری بات کہاں سے لاؤں میں
00:09:39وہ مسکراتے ہوئے اس کے بالوں میں موں چھپاتا
00:09:42مدھوش ہونے لگا
00:09:43اللہ جی میں نے کون سے لمحے میں دعا مانگی تھی
00:09:45کہ مجھے رومنٹک شہر چاہیے
00:09:47خدا کے لیے اسے لے لیں
00:09:49اور تھوڑا سیریس والا شہر مجھے دے دیں
00:09:51اس کی دعا پر شازم
00:09:52اس کے بالوں سے موں نکال کر اسے گھورنے لگا
00:09:55لڑکی تمہیں میری محبت کی قدر نہیں ہے
00:09:58کیا وہ صدمت سے بولا تھا
00:10:00اب کیا آپ کی محبت کی قدر کرنے کے چکر میں
00:10:02چھپے جا کے نعرے لگاؤں
00:10:04کہ میرا شہر رومنٹک ہے
00:10:06وہ بھی ضرورت سے زیادہ
00:10:07سوائے رومنٹک سے کچھ سوجتا ہی نہیں ہے
00:10:10قدر نہیں ہے بس بتائیں
00:10:12مجھے قدر کیسے کی جاتی ہے
00:10:13وہ اسے خود سے پیچھے کرتے ہوئے
00:10:15بیٹ پر اپنا سرحانہ ٹھیک کرنے لگی
00:10:17محبت کی قدر محبت کی ادا
00:10:20محبت سے ادا کی جاتی ہے
00:10:22اظہار کر کے کی جاتی ہے
00:10:23اپنے انداز سے بتا کر کی جاتی ہے
00:10:26لیکن میری بیوی کو
00:10:27یہ ساری باتیں کہاں بتا ہوں گی
00:10:29اس کے دماغ میں تو دن رات
00:10:31بس شرارتیں چلتی رہتی ہیں
00:10:33میری معصوم ماں
00:10:35اسے ظالم ترین ساس لگتی ہے
00:10:37میری بہن اسے چلاک لڑکی لگتی ہے
00:10:39اور میری معصوم بھابی جو اسے
00:10:41وہ تو کچھ کہتی بھی نہیں
00:10:42وہ کیا لگتی ہے تمہیں
00:10:45اور وہ جو پورے گھر کو ہسمان پر اٹھاتے ہوئے
00:10:48اپنی ساس کو ظالم اور نمت کو چلاک کہتے ہوئے
00:10:53سوچنے لگی وہ بھی بڑی تیز ہے
00:10:56بس اس کا نام ابھی میں نے سوچا نہیں
00:10:58لیکن فکر نہ کریں کچھ دن میں
00:10:59رنگ دکھائے گی تو اس کا نام بھی
00:11:01رکھ لوں گی درش نے ہستے ہوئے کہا
00:11:03ایک عدد نام میرا بھی رکھ لو
00:11:05کیونکہ مجھے نہیں لگتا کہ تمہاری اس لسٹ
00:11:07جسے میں بھی باہر ہوں شازم نے
00:11:09اس کی گود میں سر رکھتے ہوئے کہا
00:11:11آپ تو ہیں رومانٹک ظالم ہزبن
00:11:13وہ اس کا نام رکھتے ہوئے سائی ٹیبل
00:11:16سے تیل نکال کر اس کے سر کی مساج
00:11:17کرنے لگی جبکہ وہ اس کی گود میں
00:11:20پور سکون لٹا مساج سے لطف اندوز
00:11:22ہو رہا تھا جب اچانک
00:11:23اپنے گال پر پانی محسوس کہا کہ آنکھیں
00:11:25کھول گیا کیا ہوا ذرش تم روک ہی
00:11:27رہی ہو اس کے اچانک اداس
00:11:29ہونے پر وہ بچینی سے اس کے قریب آیا
00:11:31میں کتنی خوش ختمت ہوں نہ شازم
00:11:34شازم سائیں کل تک میرے پاس
00:11:36کوئی رشتہ نہیں تھا کوئی اپنا
00:11:38نہیں تھا اور آج میرے پاس کتنے ہیں
00:11:40کتنے رشتے ہیں محبت کرنے والے
00:11:42پیار دینے والے اور میں
00:11:43کتنے سالوں سے ان سب کے لیے
00:11:45تڑپ رہی تھی اپنی ماں باپ کو
00:11:47کھونے کے بعد مجھے لگا کہ شاید
00:11:49اب کبھی بھی مجھے رشتوں کا سکون
00:11:51نہیں ملے گا لیکن آپ کی وجہ سے
00:11:53مجھے اتنے سارے رشتے مل گئے
00:11:55تینکی سو مچ مجھے ایک ماں ایک بھائی
00:11:57ایک بہن اور ایک جٹھانی
00:11:59یا شاید دیورانی دینے کے لیے
00:12:01وہ اس کے سینے پر سر رکھ دیتی
00:12:03تو اس سے شکریہ ادا کرنے لگی
00:12:05جبکہ وہ ہستے ہوئے اس کے آنسو صاف کرتا
00:12:07اس کے ماتے پر بوسا دیتے
00:12:09اسے اپنے سینے میں بینچ گیا
00:12:11اس کے انداز پر شازی مسکر آیا تھا
00:12:15یہ معصوم سی لڑکی جو سارا دن
00:12:17ہر کسی کو انسانے میں گزار دیتی تھی
00:12:19اندر سے کتنے نازک دل کی تھی
00:12:21شاید اپنوں کو کھو کر
00:12:23ہر لڑکی کا یہی حال ہوتا ہے
00:12:25اور وہ بھی تب جب وہ ایک گھر سے
00:12:27دوسرے گھر اپنا سب کو چھوڑ کر آئے
00:12:30صرف ایک شخص کے نام پر
00:12:31اور پھر جب وہی شخص اس کا ساتھ نہ دے
00:12:33تب کیا گزرتی ہوگی اس پر
00:12:35جو اپنا سب کو چھوڑ کر خموشی سے
00:12:37ایک نئے گھر کو بسانے کی
00:12:39ہر ممکن کوشش کرنے لگتی ہے
00:12:41اور مسلسل کرور بدلتی نین
00:12:43کا انتظار کر رہی تھی
00:12:44لیکن نین نے تو اس سے کہیں راتوں سے
00:12:47روٹھی ہوئی تھی
00:12:48جب سے جازم اس سے روٹ کر گیا تھا
00:12:53نین بھی اس سے خفا تھی
00:12:54اپنی گلتیوں کو مد نظر رکھتے ہوئے
00:12:57وہ کتنا پشتا رہی تھی
00:12:58یہ صرف وہ جانتی تھی
00:13:00اس کی یہ رات بھی خوبصورت ہو سکتی تھی
00:13:02اس کے چہرے پر بھی
00:13:03ذرش یایسا نکھار ہو سکتا تھا
00:13:06شاید جازم بھی اس کا ویسے ہی
00:13:08دیوانہ ہوتا جیسا شازم
00:13:09ذرش کہ ہو چکا تھا
00:13:11لیکن اپنی گلتیوں اور بیجا شک کی وجہ سے
00:13:14وہ نہ صرف جازم کو خود سے دور کر چکی تھی
00:13:17بلکہ اپنے کتنے ہی
00:13:18معصوم خوابوں کو بھی نوچ چکی تھی
00:13:20اتنے کتنا غلط کیا تھا
00:13:22اس بات کا اندازہ اسے اچھے سے تھا
00:13:24لیکن تب اسے کچھ سمجھ نہیں آتا تھا
00:13:27وہ کسی جازم کے
00:13:28اتنے خلاف ہوگی
00:13:31کہتے ہیں ٹوٹ کر
00:13:32محبت نہیں کرنی چاہیے
00:13:33یہ انسان کو توڑ کر رکھ دیتی ہے
00:13:36محبت بہت مطلبی چیز ہے
00:13:38وہ انسان کو صرف اپنا اور صرف اپنا
00:13:40سمجھنے لگتی ہے شاید یہی
00:13:42ہوا تھا اس کے ساتھ بھی وہ بچپن
00:13:44سے ہی اپنے آپ کو جازم کا اور جازم
00:13:46کو اپنا سمجھے ہوئے تھی ایسے میں
00:13:48کسی اور کو اپنے اور اس کے درمیان
00:13:50برداشت کرنا اس کے بس سے باہر تھا
00:13:52اس نے کبھی جازم سے اپنی محبت
00:13:54کا اظہار نہیں کیا تھا لیکن
00:13:56یہ بات جازم سے چھپی ہوئی نہیں تھی
00:13:58کہ وہ اسے چاہتی تھی اور جازم
00:14:00بھی تو اس سے محبت کرتا تھا
00:14:02شازم نے کتنی بار اس سے آکر بتایا
00:14:10زائلہ سے یہ بات برداشتی نہ
00:14:12ہوئی کہ جازم کسی اور کا ہو رہا ہے
00:14:14اور وہ کسی اور سے محبت کرتا ہے
00:14:16اور اس سے شادی سے پہلے
00:14:18اپنے خاندان کے لیے اور یہ شادی
00:14:20اس سے اپنے خاندان کے لیے
00:14:22کر رہا ہے اس کا دل اور دماغ
00:14:24جیسے انہی چند باتوں میں ہی
00:14:26علج کر رہ گیا اس کی محبت
00:14:28اس کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتی ہے
00:14:30وہ اپنی باتیں خود تک رکھنے لگی
00:14:32اس نے جازم سے بھی یہ باتیں
00:14:34شیر نہیں کی اگر کر لیتی
00:14:36تو شاید جیسے کچھ نہیں ہوتا
00:14:38وہ بھی نہیں سوچوں میں مصروف تھی
00:14:40کہ اس کا فون بجا
00:14:41اس وقت بھلا کون ہو سکتا ہے
00:14:43اس نے موبائل اٹھا کر دیکھا
00:14:45جیسے اس کے دل کی خواہش پوری ہو گئی
00:14:47موبائل پر جازم کا نام دیکھتے ہی
00:14:49اس نے فون اٹھا دیا
00:14:50اس کے دل کی دھرکن بہت تیز ہو رہی تھی
00:14:53کتنے دنوں کے بعد وہ ستم گر کی آواز
00:14:56سننے جا رہی تھی
00:14:57ہیلو جازم کیسے ہیں آپ
00:14:59اس نے فون اٹھاتے ہوئے بیتابی سے پوچھا
00:15:01زائلہ لگتا ہے تو میں فون لگیا
00:15:03میں کسی اور کو کر رہا تھا
00:15:05جازم نے جلتی سے کہا
00:15:07لیکن فون بند نہیں کیا
00:15:08اتنی رات کو کس کو فون کر رہے تھے
00:15:11وہ پوچھے بینے نہ نہ رہ سکی
00:15:13کچھ رشتے اعتبار قائم کرنے کے لیے بھی ہوتے ہیں زائلہ
00:15:16وہ نہ چاہتے ہوئے بھی تلخ ہوا
00:15:18میں نے ایسا تو کچھ نہیں کہا جازم
00:15:20میں تو بت ایسے ہی پوچھ رہی تھی
00:15:22زائلہ نے اپنی صفائی پیش کی
00:15:24لیکن جازم کچھ بھی نہ بولا
00:15:26نہ جانے یہ خموشی کتنی دیر
00:15:28ان دونوں کے دربیان رہی جب
00:15:30اسے جازم کی آواز آئی
00:15:31ہیپی برٹ سڑے زائلہ اور پھر فون بند ہو گیا
00:15:34وہ کتنی ہی دیر اس کے الفاظ سنتی رہی
00:15:37اس نے کسی اور کو نہیں بلکہ
00:15:40اسی کو فون کیا تھا
00:15:41ہر سال کی طرح سب تو پہلے
00:15:43اسے وش کرنے کے لیے زائلہ نے
00:15:45مسکراتے ہوئے فون کو دیکھا
00:15:47اور اگلے ہی لمحے
00:15:47اسے اپنے سینے سے لگا لیا
00:15:49جیسے وہ کوئی موبائل فون نہیں
00:15:51بلکہ اس کا جازم ہو
00:15:52اس نے تو خود سے اہت کیا تھا
00:15:54کہ وہ دائم سے بات نہیں کرے گی
00:15:56لیکن وہ کیا کرتی
00:15:58باہر چہکتے توتے کی آواز سن کر
00:16:00اس کا بار بار باہر جا کر
00:16:02توتے کو دیکھنا تھا
00:16:04وہ بالکل ویسا ہی تھا
00:16:05جیسا اتنے فرمائش کی تھی
00:16:06ہائی کی کتنہ پیارا ہے
00:16:08میں جا کر اسے دیکھوں
00:16:09قریب سے ہاں مجھے جانا چاہیے
00:16:11لیکن میں تو نراض ہوں
00:16:12ایک توتے کے لیے کیسے مان جاؤں
00:16:14اگر اب مان گئی
00:16:15تو ساری زندگی مجھے ایسے ہی تنگ کریں گے یہ
00:16:18مجھے اتنی جلدی نہیں منانا چاہیے
00:16:20اگر بعد میں بھی وہ ایسے ہی کرتے رہے
00:16:22تو زندگی کیسے کٹے گی
00:16:24ان کے ساتھ
00:16:25سب وقت تو ان کو سیکھانا پڑے گا
00:16:27لیکن توتہ کتنا چہک رہا ہے
00:16:29یہ تو بالکل ویسا ہی ہے
00:16:30میرا مٹھو جانوں
00:16:32حسرت سے باہر دیکھ رہی تھی
00:16:33کوئی بات نہیں
00:16:34اس بار ماف کر دیتی ہوں
00:16:36اس نے خود سے کہتے ہوئے فیصلہ کیا
00:16:38اور خود کے ساتھ ہی
00:16:39دس منٹ تک مذاکرات کر کے
00:16:41وہ باہر کی طرف آئی
00:16:42جہاں وہ توتے کو رکھے آرام سے
00:16:44اس کے قریب کھڑا
00:16:45اس سے دیکھ رہا تھا
00:16:46وہ کب سے دروازہ کھلنے کا انتظار کر رہا تھا
00:16:49لیکن اندر بیٹھی میڈم
00:16:50فل نکرے دکھانے کے موڈ میں تھی
00:16:52وہ اس کے نکرے اٹھانے کے موڈ میں
00:16:54دو تین بار تو دروازہ کھٹ کھٹ آ کر
00:16:57اس نے اسے یہ بھی بتایا
00:16:59کہ باہر آؤ میں تمہارے لئے گفٹ لائیا ہوں
00:17:01لیکن اندر سے آواز آئی
00:17:02کہ آپ اور آپ کا گفٹ وہی جائیں
00:17:04یہاں پچھلے تین دن سے تھے
00:17:06اور پھر دائم نے اسے
00:17:07اس کے حال پر چھوڑ دیتے ہوئے
00:17:09کہا کہ جب تمہارا موڈ تھوڑا ٹھیک ہو
00:17:12پلیز باہر آ کر ایک بار
00:17:13اپنے مٹھو کو دیکھ لو
00:17:15کیونکہ اگر تمہیں یہ پسند نہیں آیا
00:17:18تو میں اسے واپس لے جاؤں گا
00:17:20اور تب سے ہی اس کے دل میں
00:17:22گدگدی ہو رہی تھی
00:17:23یہ نہ ہو کہ وہ اندر اٹھی ہوئی بیٹھی رہے
00:17:25اور اس کا مٹھو اس اب بھی نہ ملے
00:17:27ہمیشہ کر یہ واپس چلا جائے
00:17:29اس نے باہر آ کر مٹھو دیکھا
00:17:30ہائی کتنہ پیارا ہے
00:17:32کیا یہ باتیں بھی کرتا ہے
00:17:33وہ اپنی نراضگی بھلا کر
00:17:35اس کے قریب صوفر پر بیٹھی
00:17:36اس سے پوچھنے لگی
00:17:38نہیں یہ باتیں نہیں کرتا
00:17:39لیکن توتے والے بھائی نے کہا ہے
00:17:41کہ نسل بہت اچھی ہے
00:17:43اور توتے بہت جلدی باتیں کرنے لگتے ہیں
00:17:45لیکن اگر مالک اچھے ملے
00:17:47تو تب
00:17:48اب تمہیں کوشش کرنی ہوگی
00:17:51کہ یہ بولنا سیکھ جائے
00:17:52اب تو تم ہی اس کی مالک ہو
00:17:54اسے تمہیں نہیں سنبھالنا ہے
00:17:56کہ جیسے خود پٹر پٹر کرتی ہو
00:17:57اسے بھی سکھا دینا
00:17:59وہ شرارت سے اس کی ننی سے ناک چھوٹے ہو بولا
00:18:02جبکہ وہ توتے کے پنجرے پہ ہاتھ رکھے تھی
00:18:04حرم کو پتہ ہی نہیں چلا
00:18:06کہ کبھی اس نے اس کی انگلی کو کٹ لیا
00:18:08ایک چیک اس کے موں سے نکلی
00:18:10اور اگلے ہی پل وہ اسے کھنچ کر
00:18:11اپنے قریب کرتا
00:18:12توتے کے پنجرے کو اس سے بہت دور کر چکا تھا
00:18:15واجد اس اٹھا کر پھینکو یہاں سے
00:18:17باہر
00:18:18اور ڈاکٹر کو بلاو
00:18:19دائم دھارتے ہوئے بولا تھا
00:18:21جبکہ اس کی عواز پر حرم سہم کر رہے گی
00:18:23اس کا غصہ کرنے پر واجد تقریبا
00:18:25باہر سے بھاگتے ہوئے اندر آیا تھا
00:18:27وہ کچھ فاصلے پر بڑے توتے کے پنجرے کو اٹھانے لگا
00:18:30جب وہ بول پڑی
00:18:31نہیں یہ میرا مٹھو ہے
00:18:32آپ اسے اس طرح سے نہیں لے کر جا سکتے
00:18:35حرم نے واجد کے پیچھے جانے کی کوشش لی
00:18:38اس نے تمہیں ہٹ کیا ہے
00:18:40جانے شاہ اسے تمہارے پاس رہنے کا کوئی حق نہیں
00:18:43اس کی شدت سے کہنے پر حرم کو چپ لگ گئی تھی
00:18:46تو آپ چاہتی ہیں کہ میں شادی کر لو
00:18:49وہ مسکراتے ہوئے نور کے قدموں میں بیٹھا پوچھ رہا تھا
00:18:52جس پر نور نے ہاں میں سر ہلیا ہے
00:18:54وہ لڑکی تمہیں بہت پسند رہ گی
00:18:56یاسم مجھے بھی بہت پسند ہے
00:18:58میں اس سے شادی میں ملی تھی
00:18:59بہت پیاری بچی ہے
00:19:00مجھے تو اتنی اچھی لگی
00:19:02کسی دیکھتے ہی مجھے تمہارا خیال آیا
00:19:04اور جب مجھے پتا چلا کہ وہ میری تحیلی کی بیٹی ہے
00:19:07تو میں نے فوراں سوچ لیا
00:19:08کہ میں اس کی شادی تمہارے ساتھ کروں گی
00:19:10تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہے یاسم
00:19:13اگر تمہیں کوئی اعتراض ہے
00:19:14تو تم انکار کر سکتے ہو بیٹا
00:19:16تم یہ مت سوچنا مجھے برا لگے گا
00:19:18اس لئے میں نے ابھی تک بات آگے نہیں بڑھائی
00:19:21میں نے سوچا پہلے تم سے پوچھوں گی
00:19:23تم بس ایک بار چل کر اس لڑکی کو دیکھ لو
00:19:25اگر تمہیں پسند نہیں آئی
00:19:27تو نہ سمجھو
00:19:28میں جانتی ہوں تم اتنے خوبصورت ہو
00:19:30ماشاءاللہ تم نے تو
00:19:32کوئی نہ کوئی لڑکی اپنے لئے ڈھونڈ ہی لی ہوگی
00:19:34وہ شرارت سے کہتی اس کے دل میں جھانک رہی تھی
00:19:37جب وہ مسکر آیا
00:19:38آپ کی خوشی کے سامنے کوئی بھی نہیم
00:19:41یہاں جہاں میری امی کہیں گی
00:19:43میں وہیں کروں گا شادی
00:19:44بتائیں کب چلنا ہے لڑکی کو دیکھنے
00:19:46اس نے مسکراتے ہوئے نور کے ہاتھ چوم لئیے
00:19:48جبکہ اس کی فرما برداری پر نور نے فورا
00:19:51اس کی پشانی چوم کر
00:19:52مسکراتے ہوئے کہا
00:19:53کہ کل وہ لوگ لڑکی کو دیکھنے جائیں گے
00:19:55جب یاسم نے حیدر کو دیکھا
00:19:58جب بینہ کچھ بولے مسکر آ رہا تھا
00:20:00اسے کیوں دیکھ رہے ہیں بابا
00:20:01سائیں میں آپ کو اپنے ساتھ نہیں لے کے جا رہا
00:20:05صرف میں اور امہ جائیں گے
00:20:06لڑکی کو دیکھ کر واپس آ جائیں گے
00:20:08اس نے حیدر کو دیکھ کر
00:20:10مسکراتے ہوئے کہا
00:20:11تو بیٹا ساری براد بھی اکیلے لے جانا
00:20:14تو ماں بیٹوں کو
00:20:16تو وہاں بھی میری ضرورت پیش نہیں آئے گی
00:20:18حیدر مو بناتے ہوئے بولا
00:20:20آئیڈیا اچھا ہے
00:20:21پہلے کہاں تھے
00:20:22یاسم شرارت سے کہتے ہوئے
00:20:23باہر کی طرف دور لگا چکا تھا
00:20:25جبکہ حیدر اپنا جوتا اتارتے ہوئے
00:20:27اس کے پیچھے بھاگا
00:20:28مت بھاگیں حیدر سائیں
00:20:30پیر میں موچ آ جائے گی
00:20:31اب عمر ہو چکی ہے
00:20:32میرے بیٹے کا مقابلہ نہیں کر سکتے
00:20:35آپ نور نے اتراتے ہوئے کہا
00:20:37اچھا جی بیگم سائیں
00:20:39تو یہ بات ہے
00:20:39بیٹا کیا گیا
00:20:40آپ تو شور کو بھول ہی گئی
00:20:42ابھی پکڑ کے لاتا ہوں
00:20:44اس کو کان سے
00:20:45پھر آ کر آپ سے پوچھتا ہوں
00:20:46کہ کس کی امہ ہو چکی ہے
00:20:47وہ اسے وارن کرتا
00:20:49وہ باہر کی طرف بھاگا
00:20:50جبکہ نور ان دونوں کی
00:20:52بچکانہ حرکتوں پر کھل کھلا کرتی
00:20:54نور تو یہ سوچ سکتا پریشان ہو رہی تھی
00:20:56کہ حیدر اسے مطلب ہی سمجھے گا
00:20:59وہ سمجھے گا
00:20:59اسے کی شادی کے لیے
00:21:01وہ اسے بات کر رہی ہے
00:21:02اپنے پاس بلا رہی ہے
00:21:04اسے اپنا بیٹا مان رہی ہے
00:21:06لیکن ایسا کچھ نہیں ہوا تھا
00:21:07یاسم نے تو آتے ہی
00:21:09اسے اپنی سینے سے لگا لیا
00:21:11اتنی دیر اس کے سینے سے لگی
00:21:12بے آواز روتی رہی
00:21:14اور وہ خاموش سے
00:21:15اس کی فسیاں سنتا ہے
00:21:17کہ اس کی آنسو ساف کرتا رہا
00:21:19کوئی شکوہ نہیں
00:21:20کوئی گلہ رہی
00:21:21شاید اس رشتے میں
00:21:22شکوہوں اور شکوہوں کی
00:21:23کوئی گنجائش ہی نہیں
00:21:24نہیں ہوتی
00:21:25پچھلے تین دن سے
00:21:28اس کے بالکل سامنے
00:21:29نہیں آ رہی تھی
00:21:29وجہ وہ بہت اچھے سے جانتا تھا
00:21:32اس رات کی
00:21:33اس جسارت کے بعد
00:21:34تو جیسے دل نے
00:21:35اپنے آپ کو کہیں
00:21:36پردوں میں چھپا لیا تھا
00:21:37صبح اس کے
00:21:39اٹھنے سے پہلے
00:21:40گھر سے غائب
00:21:41تیدی یونیورسٹی
00:21:42چلی جاتی تھی
00:21:43اور شام واپس آتے ہی
00:21:44اپنے برڈ روم میں
00:21:45بند ہو جاتی تھی
00:21:46کھانا اس کے صبح
00:21:47اٹھنے اور شام
00:21:48آفیس سے واپس آنے
00:21:49پہلے ہی
00:21:50ٹیبر پر ملتا تھا
00:21:51جو بعد میں
00:21:52دادو سائن سے
00:21:53خود اسے
00:21:53سرب کر دیتی
00:21:55اس رات
00:21:56اپنی اس سے
00:21:57اختیار کردہ
00:21:59خود بھی
00:21:59کتنی دیر
00:22:00سوچتا رہا
00:22:01لیکن پھر یہ سوچ کر
00:22:02اگنور کر دیا
00:22:03کہ اس کا حق بنتا ہے
00:22:04اور بہرام تو دل پر
00:22:06اس وقت سے حق
00:22:07تو جتانے کا عادی تھا
00:22:08جب وہ اس کی
00:22:09کچھ بھی نہیں تھی
00:22:09اب تو وہ اس کی
00:22:10منکوہ تھی
00:22:11وہ کھانا کھا کر
00:22:12اپنے کمرے میں آ گیا
00:22:13آج اسے
00:22:14دادو سائن کی طبیق
00:22:15کچھ خراب لگ رہی تھی
00:22:16ان دنوں وہ
00:22:17منیر و سگیر
00:22:18کو ڈھوننے میں بھی
00:22:18مظروف تھا
00:22:19اتنے بہت سارے کام
00:22:20بہت سارے لوگوں کو
00:22:22اس کام پر لگایا ہوا تھا
00:22:23اور بہت جلد
00:22:24اس دھر کو چھوڑ کر
00:22:25اپنے نئے گھر میں
00:22:26شفٹ ہونے والا تھا
00:22:27وہ اسی بارے میں
00:22:28دادو سائن سے
00:22:28بات کر رہا تھا
00:22:29جبکہ
00:22:30اسے دادو کی طبیق
00:22:31خراب لگی
00:22:32اس کے دو تین بار
00:22:33پوچھنے پر
00:22:34وہ مسکر آ کر
00:22:34ٹال گئی
00:22:35پھر جب اس سے
00:22:36ان کی طبیق زیادہ
00:22:37خراب لگی
00:22:38تو وہ خود
00:22:39انہیں کمرے میں
00:22:40چھوڑ کر آیا
00:22:41دوائی وغیرہ
00:22:42تو دل پہلے ہی
00:22:43دے چکی تھی
00:22:44جبکہ دادو سائن
00:22:45اپنی طبیق
00:22:46تو تھکاور کہہ
00:22:46کر ٹال رہی تھی
00:22:47بیٹھا اب ان بڑی
00:22:49ہڈیوں میں جان
00:22:50کہاں ہے
00:22:50بات دو قدم
00:22:51اٹھاتی ہوں
00:22:52تھکاور محسوس
00:22:53ہونے لگتی ہے
00:22:54طبیق بلکل
00:22:54ٹھیک ہے میری
00:22:55تو میں فکر
00:22:56کرنے کی ضرورت نہیں
00:22:57اس کے بار بار
00:22:58پوچھنے پر
00:22:59وہ اسے
00:22:59مسکر آ کر
00:23:00مطمئن کرنے لگی
00:23:01لیکن اس کے
00:23:02باوجود بھی
00:23:02وہ کافی دیر
00:23:03ان کے پاس ہی
00:23:04بیٹھا رہا
00:23:04جب دادو نے
00:23:05اسے دبردستی
00:23:06کمرے میں بیجا
00:23:07کیونکہ وہ
00:23:08انہیں آتے ہی
00:23:09بتا چکا تھا
00:23:09کہ صبح ایک
00:23:10میٹنگ کے سلسلے میں
00:23:11وہ شہر سے
00:23:12باہر جانے والا ہے
00:23:13اور صبح صبح
00:23:14ہی گھر سے نکلے گا
00:23:15اور سفر کے لیے
00:23:16دادو سائن کا
00:23:17ماننا تھا
00:23:18کہ ارام کرنا
00:23:19ضروری ہے
00:23:19اب رات کو پہنے
00:23:20بارہ بجے
00:23:21وہ زبردستی
00:23:22اسے کمرے میں بیج کر
00:23:23خود بھی ارام کرنے لگی
00:23:24لیکن وہ
00:23:25ان کی طبیعت سے
00:23:26مطمئن نہیں تھا
00:23:28اسی لیے
00:23:28تھوڑی دیر کے بعد
00:23:29خود ہی ان کے
00:23:30کمرے میں واپس آ گیا
00:23:31اس نے جیسے کمرے میں
00:23:32قدم رکھا
00:23:33دادو سائن کو
00:23:34اپنا دل تھامے
00:23:35دیکھ کر پریشان ہو کر
00:23:37ان کی طرف بھاگا
00:23:37ان کے سانس
00:23:38بہت بری طرح سے
00:23:39پھولی ہوئی تھی
00:23:40اور تکلیف سے
00:23:41بات بھی نہیں کر پا رہی تھی
00:23:43ان کی اس کنڈیشن پر
00:23:44اس کے ہاتھ پیر پھول گئے
00:23:45اس نے انچی آواز میں
00:23:46دل کو آواز دی
00:23:47دل اپنے کمرے میں جا کر
00:23:49اپنی کوئی آسائیمنٹ
00:23:50تیار کر رہی تھی
00:23:50اس کی آواز پر بھاگ کر
00:23:52باہر آئی
00:23:53وہ اسے اس طرح پکار رہا تھا
00:23:54کہ یقیناً کچھ نہ کچھ
00:23:55غلط ہوا تھا
00:23:56لیکن باہر آتے ہی
00:23:57دادو سائن کو
00:23:58بہوں میں بھرے دیکھا
00:24:00وہ باہر گاڑی کی طرف
00:24:01بھاگا تھا
00:24:02اور دل کو ساتھ آنے کا
00:24:03اشارہ کیا
00:24:03یقیناً اسے گھر میں
00:24:05تنہا نہیں چھوڑ سکتا تھا
00:24:06دادی کی حالت دیکھ کر
00:24:07وہ بھی فوراً
00:24:08اس کے پیچھے بھاگ کر آئی تھی
00:24:10وہ ذات سے یہاں
00:24:13وہ رات سے یہاں آئے ہوئے تھے
00:24:14اس وقت صبح کے گیارہ بج رہے تھے
00:24:16انہوں نے اپنی
00:24:17ابھی تک یہ خبر کسی کو نہیں دی تھی
00:24:19ڈاکٹر تیزی کے ساتھ
00:24:21بھاگتے کبھی اندر جا رہے تھے
00:24:22کبھی باہر آ رہے تھے
00:24:23جب ایک ڈاکٹر نے آ کر
00:24:25انہیں بتایا
00:24:25کہ آپ کی دادی کو ہارٹ اٹیک آیا ہے
00:24:27حالت بہت نازک ہے
00:24:28شاید ان کا بچنا ممکن نہ ہو
00:24:30ڈاکٹر نے انہیں
00:24:31کوئی بھی امید نہ دلاتے ہوئے کہا
00:24:43آپ میرے سامنے ہاتھ نہ باندھیں
00:24:44اللہ کے سامنے دعا مانگیں
00:24:45دعا تو تصدیریں بدل دیتی ہیں
00:24:47اللہ پر بھروسہ رکھیں
00:24:49ہم اپنی مکمل کوشش کر رہے ہیں
00:24:51وہ دل کو ہنسلہ دیتے ہوئے
00:24:53واپس اندر چلا گیا
00:24:54جبکہ دل بحرام کے سینے سے لگی
00:24:56بوری طرح سے رو رہی تھی
00:24:57ایسی کنڈیشن میں خود کو
00:24:59اس کو سنبھالنا
00:25:00ایک بہت مشکل مرحلہ تھا
00:25:02دل کو ہنسلہ دے کر
00:25:03وہ باہر آیا تھا
00:25:13جانو سائن کو اس کے بارے میں
00:25:15بتائے لیکن واجد نے بس اتنا ہی کہا
00:25:18کہ وہ اس سے کوئی بات نہیں کرنا چاہتی
00:25:19بلکہ اس کے بارے میں اتنا تو کوئی بات
00:25:22سننا نہیں چاہتی
00:25:23اور نہ ہی اسے کبھی دیکھنا چاہتی ہے
00:25:25وہ اس سے سکھ خفا ہے
00:25:27اپنے اپنوں کی موت کا ذمہ دار
00:25:29وہ اسے سمجھتی ہے
00:25:30اور اگر دادو سائن کو کچھ ہو گیا
00:25:33تو شاید ان کی موت کا ذمہ دار بھی
00:25:34وہ اسے ہی سمجھے گی
00:25:36ہون بن کرنے کے بعد واجد نہ جانے
00:25:38کتنی دیت تک اس بارے میں سوچتا رہا
00:25:40ابھی دو دن پہلے کا ہی واقعہ تھا
00:25:42جب ایک توتے نے ذر آتا جانو سائن کو
00:25:44انگلی پر کاٹ لیا
00:25:45گھر پر کتنا ہنگامہ ہوا تھا
00:25:47وہ ہورم ہزار منت اور آنسو پر بھی نہ پگھلا
00:25:50اور توتے کو ہمیشہ کے لیے اعداد کر لیا
00:25:53ایک چھوٹی سی بات پر
00:25:54وہ اتنا ہنگامہ کر سکتا تھا
00:25:56کہ اگر وہ جانو سائن کو اس کی دادو کی
00:25:58کنڈیشن بتا دے
00:25:59اور اگر ایسے میں جانو کی طبیت خراب ہو گئی
00:26:02تو ان کی جان نکال دے گا
00:26:03اس نے دائم کو فون کرنے کی بہت کوشش کی
00:26:06لیکن میٹنگ کی وجہ سے
00:26:07وہ موبائل سائلنٹ پر لگا دیتا تھا
00:26:09جس کی وجہ سے وہ اس سے رابطہ نہ کر سکا
00:26:12اور واجد نے بھی اس بارے میں جانو سائن
00:26:14کو کچھ بھی نہ بتایا
00:26:15یادم
00:26:18اس پیاری سی لڑکی کے سامنے بیٹھا
00:26:21اسے باتوں میں مضروف تھا
00:26:23جو شرماتے ہوئے آہستہ آواز سے
00:26:25جواب دے رہی تھی
00:26:27واقعی وہ بہت
00:26:28بہرام اس پیاری سی لڑکی کے سامنے بیٹھا
00:26:32اس سے باتوں میں مضروف تھا
00:26:33جو شرماتے ہوئے آہستہ آواز میں
00:26:35جواب دے رہی تھی
00:26:36واقعی وہ پسند کے قابل تحریف تھی
00:26:39سیدھی سادھی تھی خاموش طبیت کی بھی
00:26:41بلکل اس کی ماں کے جاتی
00:26:43یاسم بھی پہلی بار
00:26:45اس طرح کے مراحل سے گزر رہا تھا
00:26:48اس لئے اس کنڈیشن میں
00:26:50کیسے سوال پوچھے جاتے ہیں
00:26:51وہ بھی نہیں جانتا تھا
00:26:53وہ اس سے کوئی بھی سوال پوچھا
00:26:54تو جواب اس کی وہاں کی طرف سے آتا
00:26:56جس پر وہ مسکرا کر آ جاتا
00:26:58ارے تم دونوں یہاں کیوں بیٹے ہو
00:27:00جاؤں نہ فضہ اس سے باہر لے جاؤں
00:27:02گھر دکھاؤ مصبہ نے فضہ کو مخاطب کیا
00:27:05انہیں تو یاسم بہت زیادہ پسند آ رہا تھا
00:27:08اب یاسم کو بھی فضہ پسند آ جائے
00:27:10نور مجھے تو تمہارا بیٹا بہت پسند ہے
00:27:13تمہیں کیا لگتا ہے وہ رشتے کے لئے
00:27:14یہاں کرے گا یا نہیں
00:27:16مصبہ اس کے پاتھ بیٹھ کے پوچھنے لگی
00:27:18میں کچھ نہیں کہہ سکتی مصبہ
00:27:20اس کی مرضی ہے
00:27:21اس پر کوئی ضبردستی نہیں
00:27:23اگر اسے فضہ پسند آتی ہے
00:27:25تو مجھے ترشتے پر کوئی اطراز نہیں
00:27:26بلکہ مجھے خوشی ہوگی
00:27:28کیونکہ فضہ مجھے بہت اچھی لگی ہے
00:27:30لیکن میں اپنے بیٹے کی خوشی کو پہلے اہمیت دوں گی
00:27:33اسی لئے تمہیں کوئی امید نہیں دیتی
00:27:35نور نے مسکراتے ہوئے مصبہ کا ہاتھ تھاما
00:27:38جس پر مصبہ نے بھی مسکراتے ہوئے اپنا دوسرا ہاتھ رکھ دیا
00:27:42تھوڑی دیکھ کے بعد یاسم واپس آ چکا تھا
00:27:46جبکہ نور اس کے چہرے پر مسکرار دیکھ کر
00:27:48یہ اندازہ لگا رہی تھی
00:27:49کسے فضہ پسند آئی ہے
00:27:50اچھا ٹھیک ہے فضہ بیٹا
00:27:52اب ہم چلتے ہیں
00:27:53انشاءاللہ بہت جلد جواب دیں گے
00:27:54تم بھی ارام سے بیٹھ کر فضہ سے پوچھ لینا
00:27:57نور نے مصبہ سے کہا
00:27:58اور اس کے اس طرح سے جلدی جانے پر
00:28:01وہ اسے مسلسل اصرار کرتے ہوئے روک رہی تھی
00:28:03ہمیں ذائلہ کے گھر جانا ہے
00:28:05آج میری بیٹی کی سالگیرہ ہے
00:28:07اب ایک کچھ دن پہلے ہی اس کی شادی ہویا
00:28:09اور اس کا شور بھی اس کے ساتھ نہیں ہے
00:28:11تو میں چاہتی ہوں کہ اس کی یہ سالگیرہ
00:28:13ہم سب اس کے ساتھ منائے
00:28:15نور نے اڑتے ہوئے اسے وجہ بتائی
00:28:17تو مصبہ نے بھی زیادہ اصرار نہ کیا
00:28:19دروازے تک وہ انہیں چھوڑنے کے لیے آئے
00:28:22فضہ بھی ساتھ ہی تھی
00:28:24یاسم اس کی نظروں میں
00:28:26اس نے اپنے لیے پسند دیدگی دیکھ چکا تھا
00:28:29اور اپنی ماں کی نظروں میں
00:28:30اس لڑکی کے لیے پسند دیدگی
00:28:32وہ جہاں آنے سے پہلے ہی دیکھ چکا تھا
00:28:34یاسم بیٹا ہم کہاں جا رہے ہیں
00:28:36ہم تو ذائلہ کدھر جا رہے تھے
00:28:38نور نے اسے راستہ بدلتے دیکھ کر پوچھا
00:28:40کہیں نہیں میں آپ کو کہیں لے کر جانا چاہتا ہوں
00:28:43جس طرح سے آپ نے مجھے لڑکی دکھائی
00:28:45مجھے لڑکی بہت پسند آئی
00:28:47ہر وہ آپ کی پسند تھی
00:28:48پسند کیسے نہ آتی
00:28:50یاسم کے بعد ادھوری چھوڑنے پر نور مسکرائی
00:28:52لیکن اب میں آپ کو وہ لڑکی دکھانے جا رہا ہوں
00:28:55جو مجھے پسند ہے
00:28:55یاسم کے مسکر آ کر کہنے پر نور کے چہرے پر پریشانی آئی
00:28:59یاسم یہ تم کیا کہہ رہے ہو
00:29:01حیدر نے پریشانی دکھا
00:29:10آخر فیصلہ تو انہوں نے ہی کرنا ہے
00:29:13میں آپ کو ایک لڑکی سے ملوانے لے کے جا رہا ہوں
00:29:15اما سائیں کوئی زبردستی نہیں ہے
00:29:18بس ایک بار اس سے مل لیں
00:29:19میں نے فیصلہ آپ پر چھوڑا ہے
00:29:21آپ جہاں کہیں گی میں وہیں شادی کروں گا
00:29:24لیکن میں یہ نہیں چاہتا
00:29:25کہ بعد میں یہ سوچ کر پشتا ہوں
00:29:27کہ اگر ایک بار میں آپ کو نشال سے ملوا لیتا
00:29:30تو شاید وہ میری بیوی ہوتی
00:29:32آپ کی فیصلے کیا کہ میری ساری خواہشیں
00:29:34میری ساری تمنایں بے مول ہیں
00:29:40آپ یہ مت سوچے گا
00:29:42کہ وہ میری پسند ہے
00:29:43بلکہ آپ اس سے ملتے ہوئے یہ سوچے گا
00:29:46اگر یہ آپ کی پسند ہوتی
00:29:47تو کیا آپ کے میار پر پوری اترتی
00:29:49یاسم نے مستوراتے ہوئے کہا
00:29:51جبکہ نور بلکل خاموش ہو چکی تھی
00:29:53اس کے پاس بولنے کے لیے کچھ بھی نہیں تھا
00:29:55اس نے ایک نظر حیدر کو دیکھا
00:29:57اور پھر سارا سفر خاموشی کے نظر ہو گیا
00:29:59اپنی ماں کی چپکو وہ بھی محسوس کر چکا تھا
00:30:02لیکن کیا کرتا
00:30:03یہاں صرف پسند کی
00:30:04پسندیدگی کی بات نہیں تھی
00:30:07وہ وانی کو بتا چکا تھا
00:30:08کہ وہ اس کا بابا ہے
00:30:09محبت کرنے والے تو ہارتے ہیں
00:30:11اور صدیوں سے ہارتے آئے ہیں
00:30:13لیکن کسی باپ کو کسی بیٹی کے سامنے ہارتے نہیں دیکھا
00:30:16وہ کیسے اپنی بیٹی کے سامنے ہار جاتا
00:30:19وہ کچھ دن پہلے اس کے ساتھ بیٹھی
00:30:21ایک لسٹ بنوار رہی تھی
00:30:22جس میں اس نے کہا تھا
00:30:24کہ جب آپ میرے بابا بن جاؤ گے
00:30:25تو مجھے یہ بھی چیز چاہیے
00:30:27اور وہ بھی چیز چاہیے
00:30:29دل چاہا کہ اس کے لیے وہ سب کچھ لے آئے
00:30:31لیکن وانی نے کہا
00:30:32کہ وہ یہ سب کچھ
00:30:33وہ تب ہی اس سے لے گی
00:30:35جب وہ اس کا باب بن جائے گا
00:30:37اب اس کے دل میں
00:30:40نشال کے شہر بننے کی خواہش کم تھی
00:30:42لیکن وہ وانی کا باب بننا چاہتا تھا
00:30:45اسے اپنا نام دینا چاہتا تھا
00:30:47ہاں وہ نشال سے بے پناہ محبت کرتا تھا
00:30:49لیکن اسے وانی سے بے انتہا عشق تھا
00:30:53وانی بیٹا کیوں کپڑے نکال رہی ہو
00:30:55میں ٹھیک ہوں
00:30:56وانی اس کی علماری سے کپڑے نکال رہی تھی
00:30:58باہر پھینک رہی تھی
00:30:59اسے کوئی بھی کپڑا پسند نہیں آ رہا تھا
00:31:02بس اسے بار بار کہہ رہی تھی
00:31:03کہ گھر میں مہمان آنے والے ہیں
00:31:05جلدی سے تیار ہو
00:31:06نشال نے پہلے والے کو
00:31:07تیار کرنا چاہا
00:31:10تو اس نے کہا کہ مہمان آپ سے ملنے آنے والے ہیں
00:31:12مجھ سے نہیں
00:31:13پہلے آپ تیار ہو
00:31:15نشال کو پکا یقین تھا
00:31:17کہ ضرور اس کے سکول کے کوئی دوست آنے والے ہیں
00:31:19اور ان کے آتے ہی نشال کا سارا دن کچن میں گزرے گا
00:31:22اس میں وانی میڈم کی یہ خواہش تھی
00:31:25کہ وہ کوئی نیا کپڑے پہن کر بیٹھے
00:31:27تاکہ اس کے دوستوں پر اس کا اچھا اثر پڑے
00:31:29کچھ دن پہلے بھی وہ اپنے دوستوں کو
00:31:31ان کی والدہ کے ساتھ گھر لائی تھی
00:31:33کافی اچھے لوگ تھے
00:31:34اسے بھی اچھے لگے
00:31:35اور سب سے اہم بات گھر کے کچھ فاصلے پر ہی
00:31:38وہ لوگ رہتے تھے
00:31:39اسے یقین تھا کہ وہی لوگ ہی واپس اس کے گھر آنے والے ہوں گے
00:31:43وانی کے بار بار ضد کرنے پر
00:31:45اس نے مجبور ہو کر
00:31:46دوسرے کپڑے پہنے
00:31:47تاکہ اس کی فرنڈز اسے دیکھ کر اچھا محسوس کرے
00:31:50وانی کو تو خود بھی تیار ہونے کا بہت شوق
00:31:53تاکہ اسے تیار ہونے کا بول کر
00:31:54وہ خود بھی ریڈی ہونے لگی
00:31:57جبکہ اس کی تیاریں دے کر
00:31:59نشاء لحاظت کر پاغل ہو رہی تھی
00:32:01یہ بھی اتنے ہی اچھا یہ بھی نہیں اچھا
00:32:03اور پھر آخر ہے
00:32:04انڈ پر اسے کچھ نہ کچھ پرسند آ ہی گیا
00:32:08ہم نے بہت کوشش کی
00:32:10لیکن اس کے باوجود بھی
00:32:11ہم آپ کی دادی کو بچا نہیں پائے
00:32:13شاید اللہ نے نہیں
00:32:14اللہ نے اتنی ہی زندگی لکھی تھی
00:32:17ڈاکٹر مایوسی سے کہتا آگے بڑھ گیا
00:32:19دل اس کے سینے سے لگی پھوٹ پھوٹ کر رو رہی تھی
00:32:22سب کرنے کے باوجود بھی آنکھیں بھیگنے لگی
00:32:25سبر کرنے کے باوجود بھی آنکھیں بھیگنے لگی
00:32:28ان کا آخری سہارہ بھی ان کا ساتھ چھوڑ گیا
00:32:30اب کچھ بھی نہیں بچا تھا
00:32:32آج وہ صحیح معنوں میں یتیم ہو چکے تھے
00:32:35وہ دل کو جتنا سنبھالنے کی کوشش کرتا
00:32:37اتنی ہی بکھرتی جا رہی تھی
00:32:39بکھرت تو وہ بھی چکا تھا
00:32:40اپنی دادی سائن کی لاش کو دیکھ کر
00:32:42ابھی کل رات تو اس سے باتیں کر رہی تھی
00:32:44اسے کھانا کھلا رہی تھی
00:32:46اور اب اچانک انہیں چھوڑ کر چلی گئی
00:32:48ہمیشہ کے لیے انہیں روتا چھوڑ کر
00:32:50مہمان آگئے گھر کی گھنٹی بجیتے ہی
00:32:53وانی چلاتے ہوئے باہر کی طرف بھاگ گئی تھی
00:32:55جبکہ نشال مسکراتے ہوئے اٹھ کر
00:32:57اس کے پیچھے آئی
00:32:58اسے یہی لگ رہا تھا کہ انہان وانی کے دوست آئے ہیں
00:33:01لیکن سامنے ہی ایک عورت اور مرد کو دیکھا
00:33:04جو اسے دیکھتے ہوئے ایک دوسرے سے باتیں کر رہے تھے
00:33:06یہ لوگ کون تھے وہ بلکل نہیں جانتی تھی
00:33:08اور اچانک اس کے گھر میں کیوں آئے تھے
00:33:10یہ بھی اسے بلکل سمجھ نہیں آ رہا تھا
00:33:12جبکہ نور اور حیدر وانی کو پہنچان چکے تھے
00:33:15یہ بچی یاسم کے ساتھ ہی شادی پر آئی تھی
00:33:19جبکہ وانی ان دونوں کا سلام کرتی
00:33:21یاسم کی طرف بھاگ گئے
00:33:22جو گاڑی کھڑی کر کے واپس آ رہا تھا
00:33:24دوست آپ نے جو کہا تھا میں نے کر دیا
00:33:26اگر آپ کی ماما کو میری ماما پسند آئیں
00:33:29تو پھر آپ میرے بابا بن جاؤ گے
00:33:31وہ اس کے دونوں گالوں پر بوسہ دیتی
00:33:33خوشی تو پوچھ رہی تھی
00:33:34جبکہ یاسم نے صرف ہاں میں سر ہی لاتے ہوئے
00:33:37اس کے گالوں کو چھوما
00:33:38اما سائی پلید میری ماما کے لئے
00:33:41یس کر دیجئے جائے میری ماما بہت اچھی ہیں
00:33:43اور بہت یمی یمی کھانے بھی بناتی ہیں
00:33:45اور بہت اچھی اچھی سٹوریز بھی سناتی ہیں
00:33:47وہ نور کو لالج دیتے ہوئے بولی
00:33:49اتنے دنوں کے بعد
00:33:50اس بچی کو دیکھا نور جہاں کو اچھا لگ رہا تھا
00:33:53وہی یاسم کو دیکھ کر وہ پریشان ہو چکی تھی
00:33:55کیا اس بچی کی ماں کو دکھانے کے لئے یہاں لیا ہے
00:33:58کیا وہ اس کی ماں کو پسند کر چکا ہے
00:34:01اپنے لئے
00:34:02یہ بچی کیا کہہ رہی تھی
00:34:03نور کو تو کچھ بھی سمجھ نہیں آ رہا تھا
00:34:05تب تو یاسم نے کہا تھا
00:34:07کہ یہ اس کے دوت کی بیٹی ہے
00:34:09تو کیا وہ دوت نشال تھی
00:34:10اس نے ایک نظر سامنے کھڑی
00:34:12اس خوبصورت لڑکی کو دیکھا
00:34:13تو خود بھی حیرانگی کی کیفیت میں تھی
00:34:15لیکن اسے حیرانگی نور اور حیدر کو دیکھ کر نہیں
00:34:19بلکہ یاسم کے والدین کو دیکھ کر ہو رہی تھی
00:34:22تو کیا تو وہ کیا اتنا آگے بڑھ گیا
00:34:24کہ اپنے والدین کو اس کے گھر لے آیا
00:34:26اسے اب تک یقین نہیں آ رہا
00:34:28تاکہ وہ اتنا بڑا قدم اٹھائے گا
00:34:30وہ تو یہ سب کچھ یاسم کی وقت گزاری سمجھ رہی تھی
00:34:33لیکن اب وہ خود بھی
00:34:35بری طرح سے گھبرا گئی تھی
00:34:36اممہ صاحب یہ نشال ہے
00:34:39یہ وانی اس سے تو
00:34:40آپ پہلے مل ہی چکے ہیں
00:34:42وانی کے پیدائج سے پہلے ہی نشال کی شہر کا انتقال ہو گیا تھا
00:34:45اس کا آگے پیچھے کوئی نہیں ہے
00:34:47باقی آپ کی مرضی جیسا آپ بہتر سمجھے
00:34:49یاسم کہتے ہوئے فیصلے کا حق اسے دے گیا
00:34:51جبکہ نور اور حیدر
00:34:53اس کنڈیشن کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے
00:34:55نور آہستہ سے قدم اٹھاتے
00:34:57نشال کے پاس آئیں
00:34:58میں جانتی تھی میرے پیٹے کی پسند لاکھوں میں ایک ہوگی
00:35:01اللہ تمہیں ہر خوشی نصیب کرے
00:35:03ڈور نے کہتے ہوئے اس کی پیشانی چومی
00:35:05اور بینہ اسے کچھ بولے بھی
00:35:07بولنے کا موقع تھی
00:35:08اپنے ہاتھ سے کنگن اتار کر اسے پہنانے لگی
00:35:11انٹی چی آپ کیا کہہ رہی ہیں
00:35:13میری بات سے سنیں
00:35:14نشال نے کچھ بولنا چاہا
00:35:15نشال میری امی کو بیج میں
00:35:17مخالفت کرنے والے لوگ پسند نہیں ہیں
00:35:19تو میں جو بھی کہنا ہے
00:35:20بعد میں کہنا میں سکون سے سنوں گا
00:35:22یاسم نے مسکراتے کہ اس کی کندے پر ہاتھ رکھا
00:35:25اسے یقین تھا وہ نور اور حیدر کے سامنے
00:35:27بدتمیزی تو ہرگز نہیں کرے گی
00:35:29جبکہ اسے انتہائی سخت نظر تک گھوٹے
00:35:31وون ضرور کر رہی تھی
00:35:33اچھا بابا میں سمجھ سکتا ہوں
00:35:34اچانک میں اپنے والدن کو لے کے آگیا
00:35:37اسی لئے نہ راض ہو رہی ہو
00:35:38اچھا بابا سوری میری اممہ ساہی میری شادی
00:35:41کروا رہی تھی
00:35:42اسی لئے میں نے انہیں تمہارے بارے میں بتایا
00:35:44اور انہیں یہاں لے آیا
00:35:45اب تم سے شادی کا وعدہ کیا ہے
00:35:47تو توڑ تھوڑی نہ سکتا ہوں
00:35:50بات تو میری اممہ ساہی کا پسند آگئی
00:35:53مجھ اور کچھ نہیں چاہیے
00:35:54کیوں اممہ ساہی سے ہی کہہ رہا ہوں
00:35:55میں بہو پسند ہے نا آپ کو
00:35:57وہ نور کے گرد
00:35:58وہاں پھیلاتے ہوئے مسکراتے ہوئے ہاں میں سر ہلایا
00:36:03نشال کا سمجھ نہیں آرہا تھا
00:36:05کہ وہ کچھ بول کیوں نہیں پا رہی
00:36:07اس رشتے سے انکار کیوں نہیں کر پا رہی
00:36:09لیکن وہ ان لوگوں کو
00:36:10اتنی بڑی غلط فہمی کا شکار
00:36:12ہوتے نہیں دیکھ سکتی تھی
00:36:14اسے کچھ تو بولنا ہی تھا
00:36:15وہ اس طرح سے خاموش رہ کر
00:36:17ان لوگوں کے جذبات کے ساتھ
00:36:18نہیں کھیل سکتی
00:36:19اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی
00:36:21حیدر اس کے قریب آیا
00:36:22تو بیٹا تیاری کر لو
00:36:24بہت جلد ہم نکاح کی رسم ادا کرنے آئیں گے
00:36:26اور نکاح کے بعد
00:36:28باقی ساری رسم ہمارے گھر ہوں گی
00:36:29جیسا کہ یاسم نے بتایا
00:36:31کہ تمہارا بھی یہاں کوئی نہیں ہے
00:36:33تو ایک بار ہمارا خاندان دیکھنا
00:36:35خود کو کبھی تنہا محسوس نہیں کروگی
00:36:37حیدر نے مسکراتے پہ
00:36:40اس کے سر پہ ہاتھ رکھا
00:36:41اس کا مطلب میری ماما کے لیے
00:36:43یہ سوانی نے خوشی سے نعرہ لگایا
00:36:45جس پر یاسم کے ساتھ
00:36:47نور اور حیدر بھی مسکرائے
00:36:48دیکھیں انکل آنٹی ایک منٹ
00:36:50میری بات سنیں
00:36:51مجھے نہیں پتا آپ لوگ کیا کہہ رہے ہیں
00:36:53نشال نے کچھ کہنا چاہ جب حیدر کا فون بجا
00:36:55بحرام انہیں بہت کم فون کرتا تھا
00:36:58جبکہ اس کے چانک فون بجنے پر نشال خاموش ہو گئی تھی
00:37:01بحرام بیٹا کیا ہوا
00:37:03تم رو کیوں رہے ہو
00:37:04حیدر نے پریشانی سے پوچھا
00:37:06سب ان کی طرف متوجہ ہو چکے تھے
00:37:08اِنَّا لِلَّوَ اِنَّا لَيْهِ رَاجِهُن
00:37:10حیدر کے لفاظ میں نور اور یاسم کو پریشان کر دیا
00:37:13ناظی ممانی سائیں دنیا میں نہیں رہیں
00:37:16ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ان کا انتقال ہو گیا ہے
00:37:19ہمیں ابھی واپس چلنا ہوگا
00:37:21حیدر نے کہا جبکہ نور کی آنکھیں بقاعدہ نم ہو چکی تھی
00:37:24جب یاسم نے انہیں تھام لیا
00:37:26یاسم بیٹا جلدی سے گاڑی نکالو
00:37:28نشال بیٹا ہم دوبارہ آئیں گے
00:37:29انہوں نے نشال کے سر پہ ہاتھ رکھتے ہوئے کہا
00:37:32جبکہ وہ لوگ اتنے پریشان اور افسردہ ہو چکے تھے
00:37:35نشال کچھ بول ہی نہیں پائی
00:37:37اس نے کمرے میں قدم رکھا
00:37:39جانو سائن ٹی وی دیکھنے میں مصرور تھی
00:37:41جانو نے ایک نظر اسے مسکرا کر دیکھا
00:37:43لیکن وہ بدلے میں مسکرا بھی نہ سکا
00:37:45اس کی پریشانے کا نوٹ کرتے ہوئے
00:37:47اس نے ٹی وی بند کر دیا
00:37:48کیا بات ہے شاہ آپ اتنے پریشان کیوں ہیں
00:37:51تب کچھ ٹھیک تو ہے وہ اٹھ کر اس کے پاس آئے
00:37:53جبکہ دائم کا سمجھ نہیں آرہا تھا
00:37:56کہ اتنی بڑی بات تو اسے کیسے بتائے
00:37:57تھوڑی زیر پہلے ہی واجد نے اسے فون کر کے
00:38:00بتایا کہ جانو سائن کی دادی ابھی دنیا میں
00:38:02نہیں رہی وہ فوراں ہی گھر آ گیا
00:38:04تاکہ جانو سائن کو ان کا آخری
00:38:05دیدار کرا سکے جانو سائن
00:38:08اس کے قریب بیٹی مسلسل اسے دیکھ رہی تھی
00:38:10یقیناً وہ اسے کچھ پا رہا تھا
00:38:12یا کسی بات کے لے کر بہت زیادہ
00:38:13پریشان تھی آپ ٹھیک تو ہیں
00:38:16اتنے پریشان کیوں ہیں پلیز
00:38:18مجھے بتائیں ہو سکتا ہے میں آپ کی
00:38:19پریشانی کو حل نہ کر سکوں
00:38:21لیکن اگر آپ مجھے بتائیں گے تو آپ
00:38:23پرسکون محسوس کریں گے ایسا
00:38:25میری دادو سائن کہتی ہیں جانو
00:38:27اسے سمجھاتے ہوئے اس کا ہاتھ تھام چکی تھی
00:38:30اب وہ تم سے کبھی کچھ نہیں کہیں گی
00:38:32جان شاہ شاہ کو سمجھ نہیں
00:38:33آ رہا تھا کہ وہ یہ بات کیسے شروع کرے
00:38:35میں کچھ سمجھی نہیں آپ کیا
00:38:37کہنا چاہتے ہیں جانو کو واقعی
00:38:39ہی سمجھ نہیں آیا تھا جانو پلیز
00:38:41میری بات کو آرام اور سکون سے سننا
00:38:43تھوڑا حوصلہ رکھنا
00:38:45دیکھو جانو یہ دنیا عارضی ہے
00:38:46ہماری منزل آخرت ہے
00:38:48ہم سب کوئی دنیا سے چلے جانا ہے
00:38:50آج نہیں تو کل ہم سب لوگ
00:38:52اپنی منزل تک پہنچ جائیں گے
00:38:54وہ اسے سمجھاتے ہوئے بول رہا تھا
00:38:56آپ یہ سب کیا کہہ رہے ہیں
00:38:57دائم مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا
00:38:59پلیز صاف صاف کہیں
00:39:01آخر ہوا کیا ہے وہ الجھے ہوئی بولی
00:39:04جانو تمہاری دادی اب
00:39:05دنیا میں نہیں رہی کل رات
00:39:07ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ان کی موت ہو چکی ہے
00:39:09اور میں اس وقت تمہیں تمہارے
00:39:12اور میں اس وقت
00:39:13گھر تمہیں وہاں لے جانے آیا تھا
00:39:16شاہ سنبھل کر بولا
00:39:17جبکہ جانو اس خبر پر سنبھل بھی نہ سکی
00:39:19اس سے پہلے کہ اس کے رونے میں شدت آتی
00:39:22شاہ نے اسے اپنے سینے میں بھینچ لیا
00:39:24اور وہ اس کے سینے سے لگی
00:39:28پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی
00:39:29شاہ نے اسے رونے سے روکا نہیں تھا
00:39:31کیسے روکتا
00:39:32اپنوں کی موت پر
00:39:33تو وہ خود بھی ٹوٹ پھوٹ کا رویا تھا
00:39:36یہ دکھ تو وہ بھی سمجھ سکتا تھا
00:39:37جب کوئی اپنا خود سے دور چلا جاتا ہے
00:39:40تو کیسا لگتا ہے
00:39:41اسے اپنی سینے سے لگائے
00:39:42ایسے ہی باہر لے آیا
00:39:43وہ دوبارہ کبھی بھی بہرام کی شکل نہیں دیکھنا چاہتا تھا
00:39:47لیکن اب وقت اور حالاتی ایسے تھے
00:39:49اسے اسی کی گھر جانا پڑ رہا تھا
00:39:51جازم کو پیش جیسے ہی یہ خبر ملی تھی
00:39:53وہ بھاگتے ہوئے واپس آیا
00:39:55ان کے خاندان میں اب بس وہی بزرگ ہستی تھی
00:39:58جو ان کا ساتھ چھوڑ کر چلی گئی
00:40:01تیشہ کو تنبھالنا مشکل ہو رہا تھا
00:40:03اس سے اس کی ماں ہی چھین گئی
00:40:05بس وہی تو حوصلہ تھی اس کا
00:40:07وہی تو اپنی تھی
00:40:08کس نے سوچا تھا کہ وہ یوں اچانک ان کا ساتھ چھوڑ جائیں گی
00:40:12احمد شاہ کل کی فلائٹ صرف پاکستان آ رہا تھا
00:40:15زمل کے بار بار جانو سائی کا نام لینے پر
00:40:18بہرام انہیں سب حقیقت بڑھانے پر مجبور ہو گیا
00:40:21یا اب یہ سب کچھ پانے کا کوئی مقصد نہ تھا
00:40:24وہ نہیں جانتا تھا کہ دائم جانو کو یہاں آنے بھی دے گا یا نہیں
00:40:27نہ جانے سے پتا بھی چلے گا کہ نہیں
00:40:30اس کی دادو سائیں دنیا میں نہیں رہی
00:40:32لیکن پھر بھی اس نے یہ سب کو یہ بات بتا دی
00:40:35کہ جانو سائیں لندر میں نہیں ہے
00:40:37بلکہ دائم شاہ سوری کے ساتھ ہے
00:40:38اور اب وہ اس سے نکاح کر چکا ہے
00:40:40یہ جانے کے بعد سب شوق ہوئے تھے
00:40:42لیکن یہ گلے اور شکوے کا وقت نہیں تھا
00:40:45حقیقت کو جاننے کے بعد بھی
00:40:46یہ سب لوگ خاموش ہی تھے
00:40:48لیکن تائشہ نے کہا
00:40:51تاکہ جانو سائیں کو حق ہے
00:40:53کہ اسے بتایا جائے
00:40:54کہ اس کی دادی اب اس دنیا میں نہیں رہی
00:40:56واجت کو تو وہ اسی وقت سون کر کے بتا چکا تھا
00:40:59پتہ نہیں اس نے جانو کو بتایا
00:41:01بھی ہوگا یا نہیں
00:41:02تقریبا سارا خاندان پہنچ چکا تھا
00:41:04درش تب کو سنبھالتے ہوئے
00:41:06اچھی بہت کفرد نبھا رہی تھی
00:41:08ہر کسی کے آنکھیں نم تھی
00:41:09اس وقت پورے گھر کی ذمہ داری اس پر آ چکی تھی
00:41:12جیسے وہ خوش اسلوبی سے نبھا رہی تھی
00:41:14دائم جانو سائیں کو لے کر باہر آیا
00:41:16بہرام جو سب کے سامنے ہنسلہ باندھے ہوئے تھا
00:41:19جانو سائیں سے گلے ملتے ہوئے وہ بھی رو دیا
00:41:22جبکہ اس وقت جانو بھی
00:41:24کچھ بھی سمجھنے کی کنڈیشن میں نہیں تھی
00:41:26میت کو اٹھایا گیا
00:41:28تو دل اور جانو ہی دوسرے سے لپڑ کر
00:41:30پور پور کر رو دی
00:41:31یتیم بے سہارا شاید انہیں
00:41:33جیسے لوگوں کو کہتے ہیں جن کے پاس ہوتا
00:41:35تو سب کچھ ہے لیکن شکر سے بھرپور
00:41:37سائے نہیں ہوتے ان کے اچانک
00:41:40بہت کو کوئی بھی قبول نہیں کرتا
00:41:41کر رہا تھا لیکن یہ تو
00:41:44اس دنیا کا ایک نظام ہے
00:41:45جسے سب نے قبول کرنا تھا
00:41:47اپنوں کی کمی پوری نہیں ہوتی لیکن
00:41:49وقت کے ساتھ سبر آ جاتا ہے
00:41:51آج نہیں تو کال ان سب کو بھی سبر آ جانا تھا
00:41:54لیکن اس وقت
00:41:55لیکن اس بات کو سب واقع تھے
00:41:57کہ دادو سائیں کی کمی کبھی پوری نہیں ہوگی
00:41:59بچپن کی چھوٹی چھوٹی یادیں
00:42:01ان کی باتیں کہانیاں آج بھی پہلے دن کی طرح
00:42:04دل اور دماغ کے کونوں میں محفوظ تھی
00:42:06اور ہمیشہ رہیں گے
00:42:08ایک ہفتہ گزر چکا تھا
00:42:10جانو ایک ہفتے سے یہی تھی
00:42:11کوئی بھی آپس میں بات نہیں کر رہا تھا
00:42:14سب لوگ اپنے اپنے کمرے میں بلکل خاموش تھے
00:42:16دائم بھی پاس والے ہوتل میں رہتا تھا
00:42:19جانو کے ہزار بار کہنے کے باوجود بھی
00:42:21وہ اس کے گھر پر نہیں رکا تھا
00:42:23اہمہ شاہ سے ملنے اس کے ہوتل گئے تھے
00:42:25جانو سائیں کے بارے میں بتاتے ہوئے
00:42:27وہ بھی بہت پریشان تھے
00:42:28اور اس سے کہہ رہے تھے کہ وہ جانو سائیں کا بہت خیال رکھے
00:42:31ہمیشہ اس کے پاس رہے
00:42:33جانو سے دور تو ویسے بھی نہیں رہ سکتا تھا
00:42:36وہ اس سے بے پناہ محبت کرتا تھا
00:42:38اہمہ شاہ کو اس سے بہت سارے شکوے تھے
00:42:40لیکن یہی صحیح وقت نہیں تھا
00:42:49بہرام نے اس سے بات کرنے کی کوشش کی
00:42:51لیکن وہ نظر انداز کر گی
00:42:53اتنے اہمہ شاہ کو بھی یہی بتایا تھا
00:42:56کہ یہ سب کچھ بہرام نے کیا ہے
00:42:58جبکہ وہ اس سے سمجھا رہے تھے
00:43:00کہ بہرام کی بھی اس میں کوئی غلطی نہیں
00:43:02جس طرح سے دائم بے قصور ہے
00:43:04جانو سائیں کو سمجھ نہیں آ رہا تھا
00:43:06وہ کسے بے گناہ سمجھے اور کسے گننگار
00:43:08اپنے بھائی کو دیکھتے ہی
00:43:10وہ اسے بے گناہ لگتا تھا
00:43:12تو دائم کو کیا کرتی
00:43:14جو قرآن پہ ہاتھ رکھ کے قسم اٹھا چکا تھا
00:43:16کہ وہ بے گناہ ہے
00:43:17دل نے بھی سمجھانا کی بہت کوشش کی تھی
00:43:19لیکن جانو سائیں کا بس یہی کہا تھا
00:43:22کہ جس طرح سے بہرام آپ کے لئے بے گناہ ہے
00:43:25اسی طرح سے دائم میرے لئے بے گناہ ہے
00:43:27اور اب وہ شخص میری زندگی میں بہت اہم ہے
00:43:29میں اسے چھوڑ نہیں سکتی
00:43:31بہرام نے اس سے بار بار بات کرنے کی کوشش کی
00:43:36جس پر جانو سائیں نے اس سے یہی کہا تھا
00:43:38کہ اگر آپ بے گناہ ہیں
00:43:44کیونکہ اگر دائم اور بہرام دونوں بے گناہ ہیں
00:43:46تو یقیناً قاتل کوئی تیسرا ہے
00:43:48جب وہ تیسرا اس کے سامنے آئے گا
00:43:50تب ہی وہ بہرام پر یقین کرے گی
00:43:52بہرام جانتا تھا
00:43:54اس سے کبھی بھی گناہگار نہیں سمجھے گی
00:43:58وہ اپنے بھائی سے کبھی اتنی نفرت کر ہی نہیں سکتی تھی
00:44:01بہرام نے اس سے وعدہ کیا تھا
00:44:03کہ بہت جلد وہ اصل قاتل کو دھون کر اس کے سامنے لائے گا
00:44:06اور پھر اسے دائم کو چھوڑ کر
00:44:07اور ہمیشہ کے لئے اس کے پاس واپس آنا ہوگا
00:44:09جو پھر جانو نے بس اتنا ہی کہا تھا
00:44:11کہ اس بات کا فیتلا وہ خود کرے گی
00:44:14اور پھر جانو واپس آئی
00:44:15چلی گئی
00:44:16سب نے اسے روکنے کی کوشش کی تھی
00:44:18لیکن وہ اپنے دل کا کیا کرتی
00:44:19جو اب صرف اس شخص کے ساتھ رہنا چاہتا تھا
00:44:22اس کا جانشاہ کہہ کر پکارنا
00:44:24اس کا خیال رکھنا
00:44:25اس کے نخرے اٹھانا
00:44:26ہر بات ماننا
00:44:27اب شاید ان سب چیزوں کے بغیر
00:44:29وہ بھی نہیں رہ سکتی تھی
00:44:30دو ہفتے گزر چکے تھے
00:44:32اور پچھلے دو ہفتوں میں
00:44:33بہرام مسلسل دل کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کر رہا تھا
00:44:37کہ انہیں یہ گھر چھوڑ کر دوسرے گھر میں شفٹ ہونا ہے
00:44:39لیکن اس بات کو مان ہی نہیں رہی تھی
00:44:42پچھلی رات ہی وہ احمد شاہ کو ائرپورٹ چھوڑ کر واپس آیا
00:44:45تو دل کو صوفے پہ سوتے دیکھا
00:44:47آج کل وہ بات بات پر اس سے نراض ہو جاتی تھی
00:44:50اس لئے بہرام نے اسے بینا اٹھا
00:44:52اس پر کمبل ڈال دیا
00:44:53اور پھر خود بھی وہیں تھوڑے فاطلے پر ساری رات بیٹھا رہا
00:44:57پچھلے دنوں دل کو بہت سخت بخار بھی رہا تھا
00:45:00اور اب جب سے وہ ٹھیک ہوئی تھی
00:45:01وہ اسے مسلسل دوسرے گھر چلنے کے لئے کہہ رہا تھا
00:45:05اور آج اس نے اسی فیصلہ کیا تھا
00:45:08کہ وہ اسے ہر قیمت پر لے کر جائے گا
00:45:09اب وہ مانے یا نہ مانے
00:45:17میں اسے گاڑی میں رکھ کے آتا ہوں
00:45:19وہ بینہ اسے بولنے کا موقع دی
00:45:20گاڑی میں اس کا سماں رکھنے چلا گیا
00:45:22واپس آیا تو دل کی ضد اب بھی برقرار تھی
00:45:25مجھے نہیں جانا آپ کے ساتھ
00:45:26آپ میرے ساتھ زبردستی نہ کریں
00:45:28وہ بے دردی سے اپنا چہرہ رگرتے ہوئے
00:45:31اسے دیکھ کر منت بھرے انداز میں بولی
00:45:33دل میری جان میری بات کو سمجھنے کی کوشش کرو
00:45:36میں یہاں تمہیں اس طرح کیلے نہیں چھوڑ سکتا
00:45:38پلیز میرے ساتھ چلو
00:45:39بحرام نے سمجھانے والے انداز میں کہا
00:45:42مجھے کچھ نہیں پتا
00:45:44مجھے نہیں جانا آپ کے ساتھ
00:45:45اب وہ بے قادر رونے لگی
00:45:46اور اس کے آنسو پر ایک بار پھر سے تڑپ اٹھا
00:45:50تم یہی چاہتی ہو نا
00:45:51کہ میں ہر بار تمہارے سر زبردستی کروں
00:45:53ٹھیک ہے ایسے تو ایسے ہی چاہی
00:45:55وہ اس کی تجاوہ منت اگنور کرتے ہوئے
00:45:58زبردستی اپنی باہوں میں اٹھائے
00:45:59باہر لے آیا
00:46:00بحرام مقدم شاہ میں کہہ رہی ہوں
00:46:03چھوڑیں ورنہ میں ساری زندگی آپ کو معاف نہیں کروں گی
00:46:06اس کے سینے پر لگاتار
00:46:08اپنے مکوں سے وار کرتی ہوئی
00:46:09اس سے رہائی چاہتی تھی
00:46:11جبکہ بحرام کا ایسا کوئی ارادہ نہ تھا
00:46:13اس نے باہر آتے ہوئے
00:46:14ڈرائیور کو گاڑی کا دروازہ کھولنے کا اشارہ کیا
00:46:17تمہارا دکھ میرا دکھ
00:46:19ایک جاتا ہے
00:46:19دل وہ میری بھی عزیز جان تھی
00:46:21لیکن مرنے والوں کے ساتھ مرا نہیں جاتا
00:46:24میری جان وہ اسے گاڑی میں زبردستی بٹھاتا ہوا
00:46:27کہنے لگا
00:46:28ڈرائیور سے گاڑی کی چابی لے کر
00:46:30خود ہی ڈرائیونگ سیٹ پر آ کر بیٹھا
00:46:32اور گاڑی چلانے لگا
00:46:33جبکہ دل ہر طرح کی مضامت بیکار ہوتے دیکھ کر
00:46:36اپنا چہرہ غصے سے پھیر گئی
00:46:38ڈل پلیز کھانا کھالو
00:46:39میری جان کب تک یوں بیٹھی روگی
00:46:41ہاں وہ چوتھی بار اس کے لیے کھانا لیا تھا
00:46:44لیکن دل اب بھی موہ بنائے دروازہ بند کے اندر بیٹھی تھی
00:46:47جب سے آئی تھی تب سے روئے جا رہی تھی
00:46:49وہ اپنی دادوں کا وہ گھر چھوڑنا نہیں چاہتی تھی
00:46:52جس میں وہ بچپن سے رہی تھی
00:46:53چھوڑنا تو وہ بہرام بھی نہیں چاہتا تھا
00:46:58لیکن اس نے جو نیا کاروبار شروع کیا تھا
00:47:01وہ اس گھر سے بہت دور تھا
00:47:02روزانہ جانا اس کے بس سے باہر تھا
00:47:05اسی لیے وہ اسے اپنے دوسرے گھر میں شفٹ کر رہا تھا
00:47:08وہ سب لوگ کی شفٹنگ کی تیاری مکمر کر چکے تھے
00:47:11کہ دادوں سائیں آنکھیں موند گئی
00:47:12ورنہ شاید آج وہ انہیں اپنے ساتھ اس نے گھر میں لے کے آتا
00:47:18کل سے اس کا کام شروع ہونے والا تھا
00:47:20ایسے وہ دل کو وہاں کیلے تو نہیں چھوڑ سکتا تھا
00:47:23اور وہ ابھی تک جب احمد دادوں سائیں نے
00:47:26دل کو رخصت کرنے کی اجازت دے دی تھی
00:47:29بس اہی وجہ تھی کہ وہ اسے زبردستی اس گھر میں لے آیا تھا
00:47:33تب تہی دل کھانا پینا چھوڑ کے بیٹھی تھی
00:47:35اکیلے چھوڑ دیں مجھے آپ کی ضد مان لی میں نے
00:47:38آپ نے جو چاہا وہ ہو گیا
00:47:39تب خدا کے لیے میرا پیچھا چھوڑ دیں
00:47:41میں تھوڑی در کے لیے اکیلی رہنا چاہتی ہوں
00:47:43پلیز رحم کریں مجھ پر
00:47:45وہ انتہائی غصے سے بولی تھی
00:47:48وہ اس پر تو رحم کرنے کو تیار تھا
00:47:50لیکن اپنے دل کا کیا کرتا
00:47:52جو اسے اس حالت میں دیکھ نہیں پا رہا تھا
00:47:55دادو اس کے لیے بھی اہم تھی
00:47:57اتنی ہی عزید تھی
00:47:58اتنی ہی پیاری تھی
00:47:59لیکن یہ بعض وہ اسے کیسے سمجھاتا
00:48:01پتہ نہیں دل کیا سوچ رہی تھی
00:48:03اس کے دماغ میں کیا چل رہا تھا
00:48:05لیکن جو ابھی تھا وہ اسے اس کے حال پر نہیں چھوڑ سکتا تھا
00:48:08یہ وقت ان دونوں کے لیے مشکل تھا
00:48:10اور وہ دونوں ہی ایک دوسرے کا سہارا تھے
00:48:12وہ تو جب سے یہاں آئی تھی
00:48:14ایک ہی کمرے تک محدود ہو گئی تھی
00:48:16گھر تک نہیں دیکھا
00:48:18گھر تو گھر گھر کے باہر لکھا
00:48:20اس کا اور اپنا نام تک نہیں دیکھا
00:48:23بہرام نے مجبور ہو کر
00:48:24ڈبلیکیٹ کی اسے دروازہ کھولنے لگا تھا
00:48:27کیونکہ پچھلے آٹھ گھنٹے تھے
00:48:28اس نے پانی تک نہیں پیا تھا
00:48:30بہرام اسے اس حالت میں نہیں دیکھ سکتا تھا
00:48:33اب یہاں کیا کر رہے ہیں
00:48:34آپ کو محنت نہیں ہے
00:48:36اگر میں اس کمرے میں اکیلی ہوں
00:48:37تو مطلب یہی کہ میں کیلئی رہنا چاہتی ہوں
00:48:39کیوں آ پائے ہیں
00:48:40اس طرح سے چوروں کی طرح
00:48:42کمرے میں
00:48:43سکون سے نہیں رہنے دے رہے مجھے
00:48:45خدا کے لئے جائیں یہاں سے
00:48:46مجھے کوئی بات نہیں کرنی
00:48:48مجھے کھانا بھی نہیں کھانا
00:48:49جائیں
00:48:50اس نے دروازہ کھولا
00:48:51تو ایک کونہ میں بیٹھی
00:48:52دادوں کی تصویر کو سینے سے لگائے ہوئے
00:48:55روے جا رہی تھی
00:48:56اس کی کنڈیشن کو اچھے سے سمجھ رہا تھا
00:49:00دل وہ میری بھی دادی تھی
00:49:01میرے لئے بھی اہم تھی
00:49:02جیتنی تکلیف میں
00:49:03میں تم ہو
00:49:05اتنی تکلیف میں
00:49:06میں بھی ہوں
00:49:07اگر میں تمہارا دکھ
00:49:08تمہارا درد
00:49:09تمہارے تکلیف سمجھ سکتا ہوں
00:49:11تو تم کیوں نہیں
00:49:12دل میں کچھ نہیں کہہ رہا
00:49:13نہ تم سے کچھ
00:49:15اچھا نہ کچھ برا
00:49:16بس میری ایک بات سمجھو
00:49:17کھانا کھاؤ
00:49:18کچھ نہیں کہتا تم سے
00:49:20میں کمرے سے بھی چلا جاؤں گا
00:49:21بس تم کھانا کھاؤ
00:49:22تمہاری طبیعت اب بھی ٹھیک نہیں ہے
00:49:24اب بھی تمہیں بخار ہے
00:49:25وہ اس کا ہاتھ تھامتے ہوئے بولا
00:49:27بہرام سائی میرا کچھ بھی کھانے کو دل نہیں کر رہا
00:49:30کہتے ہوئے اس کی آنکھیں نم ہونے لگیں
00:49:32جب بہرام نے اسے کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا
00:49:35رونے سے وہ واپس تو نہیں آ جائیں گی نا
00:49:38دل وہ ہم سے دور جا چکی ہے
00:49:40اب ہم ایک دوسرے کا سہارہ ہیں
00:49:42ہمیں ایک دوسرے کو سنبھالنا ہے
00:49:43ایک دیسرے کو سمجھنا ہے
00:49:45وہ اسے اپنے سینے سے لگائے
00:49:46اس کا سر سہلا رہا تھا
00:49:49جبکہ وہ اس کے سینے سے لگی
00:49:50تو ہر آپ آتا ہے
00:49:51یہ ایک برپک سے پھور پھور کر رونے لگی
00:49:53دادوں کا غم اس کے لئے بہت بڑا تھا
00:49:56اسے بھولانا ان دونوں کے لئے بہت مشکل تھا
00:49:59اپلی درونا بن کرو
00:50:00کچھ کھا لو
00:50:01پھر تمہیں میڈیسن بھی لینی ہے
00:50:02اور پھر میری دل جلدی سے ٹھیک ہو جاؤ گی
00:50:05اور انشاءاللہ پھر ہم سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا
00:50:08وہ بہت جلد ہماری جانو بھی ہمارے پاس آ جائے گی
00:50:11بحرام دل کو بہلاتے ہوئے
00:50:12کھانے کا نوالا موں میں ڈالتے ہوئے بولا
00:50:14تو اسے دیکھنے لگی
00:50:15جانو کیسے یہاں آئی گی
00:50:17وہ تو آپ پر یقین نہیں کرتی نا
00:50:19دل نہ سمجھی سے بولی
00:50:21وہ مجھ پر یقین کرتی ہے دل
00:50:23لیکن مجبور ہو گئی ہے
00:50:24قسم میں جکڑ گئی ہے
00:50:26اضائم نے اس کے سامنے قسم لی ہے
00:50:28کہ وہ بے گناہ ہے
00:50:29وہ بھی قرآن پر ہاتھ رکھ کر
00:50:30اور اس بات میں تو کوئی شک نہیں
00:50:32کہ بے شک قرآن سے بڑا ہے
00:50:34دنیا میں کوئی سچ نہیں
00:50:35اور اگر بات دین اور رشتوں پر آئے
00:50:37تو انسان دین کو ہی چنے گا نا
00:50:39مجھے میری جانو سے کوئی گلہ نہیں
00:50:43میں ہمارے خاندان کے اصل قاتلوں کو
00:50:45ڈھونڈ کر جانو کے سامنے لاکر
00:50:47انہیں ان کے انجام تک پنچا کر
00:50:49کیسے واپس لاؤں گا
00:50:50یہ میرا وعدہ ہے تم سے
00:50:51اور جانو کو لے کر
00:50:52بلکو غصہ مت ہونا
00:50:54وہ مجبور ہے
00:50:55وہ تم سے مجھ سے
00:50:56سب سے بے انتہا محبت کرتی ہے
00:50:58اور دیکھنا جب اسے سب پتا چلے گا
00:51:01تو خود تم سے مجھ سے معافی مانگے گی
00:51:02وہ اپنی ذرہ ذرہ سی غلطیوں کے لئے
00:51:04سوری بولتی ہے
00:51:05تو تمہیں کیا لگتا ہے
00:51:06اتنی بڑی بات کو وہ نظر انداز کر دے گی
00:51:09نہیں نہ بہرام نے
00:51:10امید سے پوچھا
00:51:12تو دل نے نام میں سر ہلا دیا
00:51:14اب بس اب شاباج
00:51:16تم جلدی سے کھانا کھاؤ
00:51:17تاکہ میں تمہیں میڈیسن دے سکوں
00:51:18اب پلیز جلدی سے ٹھیک ہو جو
00:51:20مجھ سے بہت خراب کھانا بنتا ہے
00:51:23بہرام نے مسکراتے ہوئے
00:51:24اس کے موں میں نوالا ڈالا
00:51:25تو وہ اپنی ہنسی دبا گئی
00:51:27اس میں کوئی شک نہیں تھا
00:51:28کہ کھانا برا نہیں تھا
00:51:30لیکن قابل تعریف بھی ہرگز نہیں تھا
00:51:33وہ جب سے گھر آئی تھی
00:51:34کمرے میں بند روئے جا رہی تھی
00:51:36اس کے دکھ کو وہ سمجھ سکتا تھا
00:51:38وہ اسے رونے سے بھی
00:51:39روک نہیں پا رہا تھا
00:51:40کیونکہ ایسے معاملوں میں
00:51:41صبر کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے
00:51:43وہ ہر ممکن کوشش سے
00:51:46اس کے دل جوئی کرنے کی کوشش کر رہا تھا
00:51:48لیکن یہ اس کے لئے بہت بھی مشکل وقت تھا
00:51:50وہ نہیں چاہتا تھا
00:51:51کہ جانو ابھی واپس آئے
00:51:52وہ یہی چاہتا تھا
00:51:53کہ وہ دل اور بہرام کے ساتھ ہی رہے
00:51:55کیونکہ ان لوگوں کا غم ایک جیسا تھا
00:51:57لیکن جب جانو نے کہا
00:51:58کہ وہ صبح واپس جانا چاہتی ہے
00:52:00تو فوراں ہی
00:52:01ٹیکٹ بک کرا کر
00:52:03ایسے اپنے ساتھ واپس لے آیا تھا
00:52:06وہاں کا محور بہت افسردہ تھا
00:52:07اور جانو کی طبیعت بھی ٹھیک نہیں تھی
00:52:09یہاں تک کہ گھر واپس آتے ہوئے
00:52:11اس کی طبیعت بہت زیادہ بگڑ گئی تھی
00:52:13رات کا سوتے ہوئے بھی دادو سائیں کو یاد کر کے
00:52:16وہ اچانک جاگ گئی
00:52:17مخار کی شدت اتنی زیادہ بڑھ گئی تھی
00:52:19کہ اسے رات کو ہی ڈاکٹر کو گھر بلانا پڑا
00:52:22لیکن طبیعت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے
00:52:24ڈاکٹر نے کہا کہ ابھی ہاؤسپٹر لے کے جائیں
00:52:26مت پتال سے واپس آنے کے بعد بھی اس کا وہی حال تھا
00:52:29اور اپنی وجہ سے
00:52:30کسی کو تکلیف نہیں دینا چاہتی تھی
00:52:33سارا وقت اپنے کمرے میں گزار دیتی
00:52:35لیکن وہ کیا سمجھے
00:52:36کہ اس کی تکلیف اور دائم کی تکلیف ایک جیسی ہے
00:52:39اس کے آنسوں کو دیکھتے ہوئے اس کا دل تڑپتا تھا
00:52:43اس وقت بھی وہ اس کے سامنے بیٹھی کھانے کی بجائے
00:52:45پلیٹ میں چمچ چلاتے ہوئے منیر کو گھر رہی تھی
00:52:48ہورم بیٹا کھانا کھالو
00:52:50تم نے تین دن سے کچھ بھی نہیں کھانا
00:52:53بس برائے نام کھاتی ہو
00:52:54اس طرح سے تو نہیں چلے گا نا بیٹا
00:52:56ہم جانتے ہیں تمہارے لیے تمہاری دادی عزید تھی
00:52:59لیکن اپنی جان کے پرواہ کرو
00:53:01اپنی حالت دیکھو کیا سے کیا ہو گئی ہے
00:53:03تمہاری طبیعت پہلے سے ہی ٹھیک نہیں ہے
00:53:05بلکل ہی نڈھال ہوتی جا رہی ہو
00:53:07درہ رحم کرو خود پر میرا بچہ
00:53:11کب تک ایسے ہی رہو گی مرنے والوں کے ساتھ
00:53:13مرا نہیں جاتا ان کی خوشی
00:53:15کے لیے جیا جاتا ہے تاکہ ان کی روح
00:53:17کو بھی سکون ملے ان کی یاد آنے پر
00:53:20تو ان کے لیے دعا مانگا کرو
00:53:21رویا مت کرو تمہارے آنسو
00:53:23انہیں تخلیف دیتے ہوں گے
00:53:25پہلے اپنے لیے نہ سہی اپنی دادی کے لیے
00:53:27ہی سے ہی آگے بڑھو حرم بیٹا
00:53:29کب تک ایسے ہی روتی رو ہوگی میری جان
00:53:31کیا تم اپنی دادوں کو خوش نہیں
00:53:33دیکھنا چاہتی بڑی اممہ سائی
00:53:35نے اسے سمجھاتے ہوئے سوال کیا
00:53:37تو اس نے
00:53:40انہیں دیکھتے ہوئے ہاں میں سر
00:53:41ہلانے لگی میں انہیں کیسے خوش کروں
00:53:43وہ تو ہمیشہ کے لیے مجھ سے روڑ کر چلی
00:53:45گئی ہیں سرخ لبوں پر برستی
00:53:47آنکھوں کا کہر دائم کو مزید تڑ پا
00:53:49رہا تھا اس پر بے رحمی
00:53:51ایسی کہ وہ بے دردی سے اپنی آنکھیں
00:53:53رگر تھی اپنی گال زخمی کرنے کی
00:53:55حد پر تھی اس کا دکھ تکلیف
00:53:57ہر چیز اپنی جگہ لیکن وہ اسے خود
00:53:59کو تکلیف پہنچانے نہیں دے سکتا تھا
00:54:01نماز پڑھا کرو اپنا دکھ
00:54:03اپنی تکلیف اللہ سے شیر کیا کرو
00:54:05اللہ سے دعا کیا کرو کہ وہ تمہاری
00:54:07دادی کو جنت میں اللہ مقام اتا کرے
00:54:09ان کے لئے دعائیں مانگا کرو
00:54:11تاکہ اللہ ان کے درجات بلند کرے
00:54:13تمہارے رونے سے ان آنکھوں کا انہیں
00:54:15کوئی فائدہ نہیں ہوگا تمہاری دعاوں سے
00:54:17تمہارے سجدوں سے اللہ خوش ہوگا
00:54:20اور اسے تمہاری دادی کو بھی خوشی ہوگی
00:54:22اپنی دادوں کو خوشیاں دوگی
00:54:24نا تم بڑی امہ ساہی سے
00:54:26اسے پیار سے سمجھاتے ہوئے پوچھ رہی تھی
00:54:28جس پر وہ روزور و شور سے
00:54:30ہاں میں سر ہلا گئے
00:54:31تو ٹھیک آج سے میری جان روئے گی نہیں
00:54:34بلکہ اپنی دادوں کے لئے دعائیں کرے گی
00:54:36ٹھیک ہے وہ اسے پیار سے سمجھا رہی تھی
00:54:38جانو ان کی باہر بات کو
00:54:40سمجھ چکی تھی
00:54:42اس نے سوچ لیا تھا کہ اب وہ اپنی دادی کے لئے
00:54:44روئے گی نہیں بلکہ ان کے لئے دعائیں کرے گی
00:54:46تاکہ اس کا اللہ اس سے خوش ہو جا
00:54:48اور اس کی دادی بھی وہاں خوش رہے
00:54:50پتہ نہیں بحرام لالا
00:54:52اور دل دیدہ کا کیا حال ہوگا
00:54:54وہ بھی تو دکھ میں اس کے برابر کے شریک تھے
00:54:57ان کے لئے بھی تو وہ عزیز تھی
00:54:59وہ ان تینوں کے بری دنیا میں
00:55:01یوں تنہا چھوڑ کر چلی گئے
00:55:02اسے دل اور بحرام کا خیال آیا
00:55:04ان کا خیال تو ویسے بھی اس کے دل سے
00:55:07نہیں جاتا تھا بس وہ
00:55:09اپنے اللہ سے دعا مانگتی تھی
00:55:10کہ بحرام جلد سے جلد اپنے خاندان کے
00:55:13قاتلوں کو ڈھونڈ لائے اور وہ
00:55:14اس کے سامنے انہیں سخت سے سخت
00:55:16سزا ملے انہیں یتیم
00:55:18کرنے کی سزا انہیں اپنوں سے دور
00:55:20کرنے کی سزا ان کے اپنوں کو
00:55:22قتل کرنے کی سزا اب وہ نماز
00:55:24پڑھ کے صرف اپنی دادوں کے لئے نہیں بلکہ
00:55:26اپنے بھائی کے لئے بھی دعا مانگے گی
00:55:28کہ وہ جلد ہی اپنے مقصد میں کامیاب ہو کر
00:55:30اصل قاتلوں کو ڈھونڈ نکالے
00:55:32کیونکہ اس بات کا یقین تو اسے بھی تھا
00:55:34کہ اس کا بھائی بے گناہ ہے اور دائم
00:55:36بھی تو مطلب صاف
00:55:37تھا کہ کوئی تیسرا تھا دائم اپنی پرانی
00:55:40اسی دنیا میں نہیں جانا
00:55:42چاہتا تھا جس میں وہ سب کچھ بھلا کر
00:55:44آگے بڑھا تھا کیونکہ وہ
00:55:46اپنا سب کچھ کھوڑ کے اب آگے
00:55:48بڑھنا چاہتا تھا لیکن اسے یقین تھا
00:55:50بہرام اپنے باپ پرتایا
00:55:52کہ قاتلوں کو ضرور ڈھونڈے گا
00:55:54اور اس کی جانوں سے ہی ہمیشہ
00:55:56اس کے لئے دعا گو تھی وہ کل ہی
00:55:58واپس آیا تھا اور جب سے واپس آیا تھا
00:56:01مانی اس کے ساتھ ہی رات کو
00:56:02بھی وہ پر ہی رکی تھی اور
00:56:04بار بار اسے کہہ رہی تھی
00:56:05کہ اسے چھوڑ کر نہ جائے
00:56:07وانی تو ویسے بھی اس کی جان تھی
00:56:08اس کے بغیر تو خوز بھی نہیں رہ سکتا تھا
00:56:12اور اب تو اممہ سائن بھی مان چکی تھی
00:56:13اس لئے اس کی اممہ سائن سے بڑھ کر کچھ
00:56:16نہیں تھا
00:56:17کیا ہے اگر وہ اس رشتے سے انکار کر دیتی
00:56:19تو اس سے مجبورن نشال کو چھوڑنا پڑتا
00:56:21کیکہ وہ اپنی ماں کو ہر خوشی دینا چاہتا تھا
00:56:24یہ سچ ہے کہ نشال
00:56:25اس کی پہلی محبت تھی
00:56:34اس کا دل کامپ نہیں لگتا تھا
00:56:36لیکن سب کو ٹھیک ہو چکا تھا
00:56:38ابھی تک وہ نشال سے ٹھیک سے نہیں ملا تھا
00:56:40نشال کو پتا چل چکا تھا
00:56:42کہ وہ آ گیا ہے لیکن وہ آتے ہی
00:56:44اپنی کمرے میں آ گیا تھا
00:56:45اور وانی بھی اس کے پاس آ چکی تھی
00:56:47رات تک کھانا کھانے کے لیے نیچے گیا
00:56:50تو وہ خاموشی سے ٹیبل پر اس کا کھانا لگا کر
00:56:52اندر کمرے میں چلی گئے
00:56:54وانی کتنی دیر سے باتیں کرتے رہی
00:56:56اور اب تک
00:56:57اور اب کچھ در پہلے ہی
00:56:59وہ کھانا کھانے کے لیے نیچے گئی تھی
00:57:00جب اچانک اس کے کمرے کا دروازہ کھلا
00:57:03ہم نے نشال کو دیکھ کر
00:57:04اسے خوشگوار حیرت ہوئی تھی
00:57:06کیا مسئلہ ہے آپ کے ساتھ
00:57:07کیوں میرے پیچھے پڑے ہیں
00:57:08کیوں نہیں مجھے سکون سے رہنے دیتے
00:57:10کیوں نہیں مجھے سکون سے رہنے دیتے آپ
00:57:14میں آج آپ کو کہہ رہی ہوں
00:57:16کہ بہتر ہوگا
00:57:17کہ آپ میرا گھر چھوڑ کر چلے جائیں
00:57:18بدنام کرنا چاہتے ہیں
00:57:20آپ میرے محلے میں
00:57:22اتھے میری سوسائٹی میں
00:57:24مجھے سمجھ نہیں آرہا تھا
00:57:25کہ وہ کیا کریں
00:57:26صبر کا پیمانہ لبرید ہوتے ہیں
00:57:28نشال غصے سے بولی
00:57:29تو کیا تو رہا ہوں
00:57:30کہ آپ سے کہ مجھ سے شادی کر لیں
00:57:32بدنامی کتارہ خوف ختم ہو جائے گا
00:57:35مکان مالکن جی
00:57:36لیکن کریں آپ کو
00:57:37آپ کے زندگی کی ہر خوشی دوں گا
00:57:39دنیا سے اتنا دور لے جاؤں گا
00:57:41کہ ان لوگوں کی سوچ بھی
00:57:42آپ تک نہیں پہنچ پائے گی
00:57:44میں ایک شادی شدہ لڑکی ہوں
00:57:45وہ یاسم کو گھوٹتے ہوئے بولی
00:57:47جی نہیں آپ بیوہ لڑکی ہیں
00:57:48اور میرا دین مجھے اجازت دیتا ہے
00:57:51کہ میں ایک بیوہ لڑکی کو اپنا ہوں
00:57:52اس لیے بہتر ہوگا
00:57:53کہ یہ بہانے آپ میرے سامنے چھوڑ دیں
00:57:55اس کے ہمیشہ والی باتیں سن کر
00:57:57وہ باہر جانے لگی
00:57:58جب یاسم نے اس کا ہاتھ تھام کر
00:58:00اسے اپنی طرف کھینچا
00:58:01تم جنون ہو یاسم حیدر شاہ کا
00:58:04تمہیں پانے کے لیے کسی بھی حد سے گزر جاؤں گا
00:58:06وہ آپ جناب کا تکلوف ایک طرف رکھ کر بولا
00:58:09جبکہ اس کی پہچان
00:58:11کہ اس حرکت پر نشال کو برا
00:58:15بھرا کر رہ گئی تھی
00:58:18وہ مجھ سے اپنا آپ اس طرح سے شرمانے لگی
00:58:21جو نامنکن تھا
00:58:22اس کی آنکھوں میں عجیب کا خوف محسوس ہو رہا تھا
00:58:24جب اس سے نیچے سے کسی کے اوپر آنے کے آواز سنائی تھی
00:58:27وہ فوراں اس سے دور ہٹی
00:58:28اور بینہ اس کی طرف دیکھے فوراں ہی وہاں سے نکل گئی
00:58:31جبکہ یاسم اسے اس طرح سے دامن بچاتا دیکھ کر
00:58:34مسکرہ اٹھا تھا
00:58:35تمہیں میرے لئے بنایا گیا ہے نشال چودری
00:58:37اور میں تمہیں حاصل کر کے رہوں گا
00:58:39اپنے سارے بہانے سب کچھ ایک طرف رکھ لو
00:58:42بہت جلد میں اپنی دولن بناوں گا
00:58:44تمہارا کوئی بھی بہانہ میرے سامنے نہیں چلے گا
00:58:46میں تمہیں پسند کرتا ہوں
00:58:48تم سے شادی کرنا چاہتا ہوں
00:58:50مجھ میں کوئی کمی نہیں ہے
00:58:51ہر طرح سے ایک مکمل انسان ہوں
00:58:53اپنا کام کرتا ہوں
00:58:54تمہیں خوشحال زندگی دے سکتا ہوں
00:58:56شکل بھی اتنی خراب نہیں ہے
00:58:58کہ قابل قبول نہ ہو
00:58:59تمہیں میری ضرورت ہو نہ ہو
00:59:01لیکن میری بیٹی کو میری ضرورت ہے
00:59:03اور ہر خواہش اس کا باب بن کر پوری کرنا چاہتا ہوں
00:59:07میری ماں کو تم پسند آگئی ہو
00:59:09اپنے لئے نہ سہی لیکن اپنی ماں کے لئے
00:59:11تو اب تم سے شادی کرنی پڑے گی
00:59:13یہ صرف میری ماں کی ہی نہیں
00:59:15بلکہ میری بیٹی کی بھی خواہش ہے
00:59:17کہ اس کی ماما اس کے بابا کی دولن بنے
00:59:19اور اس کی یہ خواہش پوری کرنے میں
00:59:21تمہیں میرا بھرپور ساتھ دینا ہوگا
00:59:23وہ اسے دیکھتے ہوئے بول رہا تھا
00:59:25جبکہ دروازے پر کھڑی وانی ان کی سرگوشیاں
00:59:28سن کر مسکرہ رہی تھے
00:59:29لگتا ہے ماما اور بابا میں دوتی ہو گئی
00:59:32اچھی بات ہے
00:59:33اب آپ دونوں دولہ دولن بنو گے نہ
00:59:35تب مسکرانا جازم پھپا کی طرح
00:59:37مت کرنا
00:59:38ہستے ہوئے انسان پیارے لگتا ہے
00:59:40نہ بابا وہ نشان سے کہتے
00:59:43یاسم سے پوچھنے لگی
00:59:44پھر یاسم کے معصومے پر بس مسکرہ کر آ گیا
00:59:47اب وہ اسے کیسے بچا
00:59:48بچا سکتا تھا
00:59:50کہ جب بچاتا تھا
00:59:52اب وہ اسے کیسے بچا تھا
00:59:55کہ جازم
00:59:55زیادہ مسکرانے کی عادت
00:59:57اب وہ اسے کیسے بتاتا
00:59:59کہ جازم کو زیادہ مسکرانے کی عادت نہیں ہے
01:00:01شازم کا اس معاملے میں
01:00:02تو کوئی بھی مقابلہ نہیں کر سکتا
01:00:04شازم ہست کر
01:00:05ہنس مک طبیعت کا تھا
01:00:08جبکہ جازم سخت مزاج کا
01:00:10سب بالکل اپنی جاب کی طرح
01:00:12وانی سے ملنے سے پہلے
01:00:16یاسم کی طبیعت بھی کچھ ایسی تھی
01:00:18لیکن نہ جانے اسے
01:00:19بچی میں ایسا کیا تھا
01:00:20کہ اس کا پوری ذات ہی بدلنے لگی
01:00:23جیسے وہ خود بھی بہت خوش تھا
01:00:24جبکہ نشال لوگوں کی باتوں کو اگنور کرتی
01:00:27واپس جا چکی تھی
01:00:28نخرے بہت ہیں آپ کی ماما کے
01:00:29وہ وانی کو گوز میں اٹھاتا ہوئے بولا
01:00:31یہی تو مطلع ہے
01:00:33بیوٹی فول گرلز بہت نخرے دکھاتی ہیں
01:00:35وانی مو بناتے ہوئے اس کی بات کی تصدیق کی
01:00:37اس کے انداز پر وہ کہکہ لگا اٹھا
01:00:39آپ بھی تو بیوٹی فول ہو نا
01:00:41ہاں بالکل
01:00:42لیکن میں نخرے نہیں کرتی
01:00:44وانی کے انداز پر مسترائے بنا نہ رہ سکا
01:00:47زندگی دوبارہ روٹین پر آ چکی تھی
01:00:49سب کچھ بدل چکا تھا
01:00:50دادوں کو گزرے ڈیڑھ مہینہ گزر چکا تھا
01:00:53سبر آ چکا تھا کبھی پوری
01:00:54تو نہیں کی جا سکتی تھی لیکن
01:00:56اس کمی کی عادت ہو چکی تھی
01:00:58آہستہ آہستہ سب کچھ نارمل ہو چکا تھا
01:01:00جب ان کی یاد آتی آنکھیں اب بھی بھیگ جاتی تھی
01:01:03لیکن اب انہیں اچھے لفظوں میں
01:01:05دعاوں کے ساتھ یاد کیا جاتا تھا
01:01:06جانو سائیں اپنی زندگی میں دوبارہ مصروف ہو چکی تھی
01:01:09دائم کو بہت سارا تنگ کرنا
01:01:11نخرے دکھانا اور پھر خود ہی روڑ کر
01:01:13بیٹھ جانا یہ تو اس کے فیورٹ
01:01:15ترین کام تھے کالج دوبارہ سٹارٹ
01:01:17ہو چکا تھا اپنی کلاس میں وہ سب سے نمائی
01:01:19سٹوڈنٹ تھی دائم اب ہر رات
01:01:21دائم اب
01:01:23رات باہر گزارنے میں بہت احتیاط کرتا
01:01:25تھا کیونکہ جانو سائیں نے کہا تھا
01:01:27کہ سر کے لئے کمرے میں ڈر لگتا ہے
01:01:28یہی وجہ سے کہ دائم کتنا بھی مصروف کیوں نہ ہوتا
01:01:31رات کو گھر واپس آ جاتا تھا
01:01:33کیونکہ گھر جانے کے بعد اس نے ایک گھنٹہ
01:01:35جانو سائیں کی باتیں سننی تھی
01:01:36آج کالج میں کیا ہوا اس نے بڑی امہ سائیں
01:01:39کو کس طرح سے تنگ کیا
01:01:41کیا چیز فرمائش کی کر کے بنوائی
01:01:43اپنے بوڈی گارڈ اسمائل بابا
01:01:45کو کسنا تنگ کیا ایک ایک لفظ
01:01:47بتاتی تھی اسمائل بابا جو کسی سے
01:01:49سیدے مو بات تک نہیں کرتے تھے
01:01:51اس کے لئے کالج کے باہر ہزار چکر لگاتے تھے
01:01:53تارہ دن اس کے کالج کے باہر
01:01:55کھڑے رہتے ہر تھوڑی دیر میں اندر سے
01:01:57چیٹ پر کچھ نہ کچھ لکھا ہوا آتا تھا
01:01:59جو جانو کو اندر چاہیے تھا
01:02:01اور وہ بھاگ بھاگ کر اس کے لئے وہ چیز لاتے
01:02:03کیونکہ دائم کا آرڈر تھا کہ جانو کی
01:02:05چہرے کی مسکرات مسٹ نہیں ہونے چاہیے
01:02:07اگر کسی کی بھی وجہ سے
01:02:08اسے کسی کی بھی
01:02:11وجہ سے وہ ہٹ ہوئی
01:02:13یا اس کی آنکھوں میں آنسو آئے تو دائم بہت بری
01:02:15طرح سے پیش آئے گا
01:02:16کہ پہلی پر وہ اسمائل بابا سے ملی تو اس نے کہا کہ
01:02:18غرور اچھی بات نہیں ہے
01:02:20ان کی سیریز سے طبیعت کو غرور کا نام دیکھ
01:02:23اور وہ انہیں سوچنے پر مجبور کر گی تھی
01:02:24اور پھر اسے یہ بتانے کے لئے کہ وہ غرور نہیں کرتے ہیں
01:02:27وہ اسے نورملی بات کرنے لگے
01:02:29دائم تو ان کا ہستا مسکراتا روح دیکھ کر
01:02:32احران ہو گیا تھا
01:02:33کہ یہ آدمی ہمیشہ اتنا رکھا سکھا رہتا تھا
01:02:36تو جانو کے سامنے یہ اتنا نرم دل کیسے ہو گیا
01:02:39لیکن پھر اسے اپنا خیال آیا
01:02:40وہ بھی تو پہلے ایسا ہی تھا
01:02:42لیکن جانو کی زندگی میں آتے ہی زندگی بدل گئی
01:02:45اسمائل بابا اکثر اس کی شکایتیں دائم سے کہتے تھے
01:02:48کہ وہ بہت بولتی ہے
01:02:49ہے اور وہ تو بول بول کے پتھروں کے بھی کانوں میں درد کر دیں
01:02:53وہ تو پھر انسان تھے
01:02:54اور اب تو ان کی بھی لات لی تھی
01:02:56صرف ان کی نہیں وہ سب کی لات لی تھی
01:02:58بڑی اممہ سائن کی
01:02:59تو جان بھی گھر میں سب ملازم
01:03:01اسے بہت چاہتے تھے
01:03:02اور اس کے لیے تو وہ اس کا کل جہاں بن چکی تھی
01:03:05اتوار کے دن میں کتنا ہی
01:03:07مسروف کیوں نہ ہوتا
01:03:09اب کیوں نہ ہو
01:03:11ہوتا جانو کے لیے
01:03:13وقت نکال ہی لیتا تھا
01:03:15اسے باہر گمانے کے لیے لے جاتا
01:03:17شاپنگ پر لے کر جاتا
01:03:18اور اب تو وہ دل سے بھی خون پر بات کرنے لگی تھی
01:03:21دل سے بات کر کے وہ خوش رہتی تھی
01:03:23اس لیے دائم نے بھی
01:03:25اسے بلکل منع نہیں کیا تھا
01:03:26آج وہ دائم گھر واپس آیا
01:03:27تو اس کی ایک اور فرمائش تیار تھی
01:03:29جان شاہ خرگوش کا تم کیا کرو گی
01:03:32تم اپنی پڑھائی پر دھیان دو
01:03:34ان سب فضول چیزوں میں پڑھنے کی ضرورت نہیں ہے
01:03:37وہ اسے سمجھاتے ہوئے بولا
01:03:38ارے نہیں نہ وہ بہت پیارے ہوتے ہیں
01:03:40بلکل چھوٹے بچوں کی طرح
01:03:42میں بلکل اسے بیبی کی طرح رکھوں گی
01:03:44پلیز لینے دیں نہ
01:03:45میرے کالج میں میری فرنڈ کے پاک بھی ہے
01:03:47میں اس کو دکھاؤں گی
01:03:49پلیز پلیز پلیز
01:03:51وہ منتیں کرتے ہوئے بولی
01:03:52چہرے پر اتنی معصومیں تھیں
01:03:54کہ اپنے دل کی دھڑکن تھام کر وہ چہرہ پھیر گیا
01:03:57وہ تمہیں ہٹ کرے گا
01:03:58جس طرح سے اس توتے نے کیا تھا
01:04:00دائم نے سمجھانا چاہا
01:04:01ارے کیسے کہیں
01:04:02ہر گوش کی چونچ ہی نہیں ہوتی
01:04:04وہ جانوں نے لوجک دیا
01:04:06لیکن دان تو ہوتے ہیں نا
01:04:07وہ بھی باہر سامنے
01:04:09وہ تمہیں کٹ سکتا ہے
01:04:10اور وہ ابھی ماننے کے لئے تیار نہیں تھا
01:04:13دان تو
01:04:14دان تو
01:04:14میرے بھی ہیں
01:04:17میں نے آپ کو کبھی کٹا
01:04:18نہیں نہ
01:04:19تو وہ بھی نہیں کٹے گا
01:04:21وہ بھی بہت معصوم ہے
01:04:22بالکل میری طرح
01:04:22وہ آنکھیں
01:04:23وہ آنکھیں ٹپ ٹپا کر بولی
01:04:25ہے کا کیا مطلب ہے
01:04:29تمہارا تمہیں سے لے آئی ہو
01:04:31کہاں وہ کس نے لاکر دیا تمہیں
01:04:33اسماعیل بابا نے
01:04:34ان کی تمہیں
01:04:35ان کی حمد کیسے ہوئی
01:04:37مجھ سے پوچھے بغیر
01:04:38تمہارے لئے جانور
01:04:39جانور لانے کیونکہ
01:04:40گھسے تو باہر کے درست جانے لگا
01:04:42جب جانور نے راستے میں آ کر
01:04:43اس کا راستہ رکھنے چاہا
01:04:45اچھے بچے گھسا نہیں کرتے
01:04:47گھسا کرنے سے
01:04:48انسان جلدی بڑھا ہو جاتا ہے
01:04:50چیرے پر جھوڑیاں پڑ جاتی ہیں
01:04:51پلیز رکھ جائیں
01:04:52وہ اس کے راستے میں آتے ہوئے
01:04:53سیڑی کے قریب تقریباً
01:04:55گسیرتے ہوئے
01:04:56رکھنے کی کوشش کر رہی تھی
01:04:58پورو میں نے کہا
01:05:00چھوڑو چھوڑ دو مجھے
01:05:01اس گھر میں کوئی جانور آیا
01:05:02تو آیا کیوں
01:05:03بس بس بس
01:05:05بی بی غصہ نہیں کرتے
01:05:06میرا بچہ
01:05:07ابھی
01:05:08ڈیپ سانس لے
01:05:10غصہ ختم ہو جائے گا
01:05:11وہ ابھی اسے رکھنے کی بھرپل
01:05:13کوشش کرتے ہو بلی
01:05:14میں نے کہا راستہ چھوڑ دو
01:05:15اس گھر میں کسی جانور کو
01:05:17نہیں رہنے دوں گا
01:05:17اس بار غصے میں اس کی آواز
01:05:19تیز ہو چکی تھی
01:05:20لیکن اب جانور
01:05:21اس کے غصے سے
01:05:22ڈرتی نہیں تھی
01:05:23اس وقت بھی وہ اس کے غصے کی پرواہ کی
01:05:24بغیر اس کے راستے میں کھڑی تھی
01:05:26اور اپنے اسمائل بابا کو
01:05:28بچانے کی کوشش کر رہی تھی
01:05:29جب وہ اسے گھسیتنے میں
01:05:30کامیاب نہ ہیسے
01:05:32اس کے گلے لگے
01:05:32جب دائم کی دھرکنیں تھم گئے
01:05:34میں نے بولا نہ غصہ نہیں کرتے
01:05:36غصہ کرنے سے تبھی
01:05:37خراب ہو جائے گی
01:05:38میرا بی بی
01:05:39آپ تو اتنے سویٹ ہو
01:05:41ابھی غصہ کام ہو جائے گا
01:05:42جسے میں بات کرتی ہوں
01:05:51نہ پیار سے
01:05:52جیسے میں بات کرتی ہوں
01:05:53نہ پیار سے
01:05:54بالکل ویسے ہی بات کرنی چاہیے
01:05:56تو مجھ سے پیار کرتی ہو
01:05:57اس کے اچانک گلے لگنے پر
01:05:59وہ دھرکنوں کے شور کو
01:06:00اگرور کرتے پوچھنے لگا
01:06:01افکورس آئی لاب یو
01:06:03وہ ابھی بھی اپنی دھن میں بولی
01:06:05جب اسے کسی بھی قسم کا
01:06:07ری ایکٹ نہ کرتے دیکھ کر
01:06:08اپنے لفظوں پر غور کر کے
01:06:10اس کا چہرہ دیکھنے لگی
01:06:11اس کے ڈیمپلز پورے
01:06:13آبوتاب سے چمک رہے تھے
01:06:14مجھے اسائیمنٹ بنانی ہے
01:06:16ٹیچر صبح غصہ ہوں گی
01:06:18وہ نظریں چوراتی ہوئی
01:06:19وہاں سے بھاگنے لگی
01:06:20جب دائم نے اس کا ہاتھ
01:06:22تھام کر اسے اپنے قریب کر لیا
01:06:24آئی لاب یو ٹو
01:06:25اس نے مسکراتے ہوئے
01:06:26اس کے سرک پھولے ہوئے گالوں پر
01:06:28محبہ سے بھرپور لمس چھوڑا
01:06:30جس پر حورم کام کر رہ گئی
01:06:31دل کی دھک دھک باہر تک
01:06:33سنائی دے رہی تھی
01:06:34بڑی کمزور جان ہو جانشا
01:06:37وہ اس کا ہاتھ چھوڑ دیتے ہوئے
01:06:39اسے جانے کا راستہ دے کر بولا
01:06:41اور راستہ دیکھتے ہی
01:06:42وہ فل سپیڈ سے اندر کی طرف
01:06:44بھاگتے ہوئے دروازہ بند کر چکی تھی
01:06:46بس کر دو
01:06:47کیا باہر آنے کا ارادہ ہے
01:06:49وہ اپنے دل سے مخاطب تھی
01:06:50جو اس کی سننے کے موڑ میں نہیں تھا
01:06:53دیکھو میں کہہ رہی ہوں چپ ہو جاؤ
01:06:55ورنہ میں نکال کے باہر پھینک دوں گی
01:06:57اس نے اپنے دل کو دھمکی دی
01:06:58جس پر وہ بیچارہ سہم کر
01:07:00مزید زور زور سے دھڑکنے لگا
01:07:02اس نے ایک نظر دروازے کی طرف دیکھا
01:07:04دروازہ پکا لوگ تھا
01:07:06وہ نظر نہیں آ سکتا تھا
01:07:07اس نے دونوں ہاتھوں سے اپنے سرخ گال
01:07:10تھپ تھپ آئیں
01:07:10اور آئینے کے سامنے آ کر کھڑی ہوئی
01:07:12سرخ چھلکتا چہرہ دیکھ کر
01:07:14وہ اپنے گالوں پر ہاتھ رکھنے لگی
01:07:16لیکن پھر اپنے چہرے کی سرخی
01:07:17اور دائم کا لمس محسوس کرتے ہوئے
01:07:19چہرے پر اپنے آپ
01:07:21مسکرار کھلنے لگی
01:07:23تو کتنی بے وکوف ہے جانو سائیں
01:07:25ایسے کیسے مو اٹھا کے
01:07:26ایسے تھوڑی نہ بولا جاتا ہے
01:07:29اس کے بھی کچھ مینز ہوتے ہیں
01:07:32کتنا ٹائم سے انتظار کر رہے تھے
01:07:33میرے اظہار کا
01:07:34اور میں نے ایسے ہی بول دیا
01:07:36ایسے ہوتے ہیں
01:07:37جا کر جلا دے وہ سارے رومانٹک موویز
01:07:41اور رومانٹک نوول
01:07:42ایک پرچند بھی فائدہ نہیں ہوا
01:07:44وہ مو بناتے ہوئے خود کو کوس رہی تھی
01:07:46جب اسے پھر سے دائم کا مسکراتا
01:07:48تو چہرہ یاد آیا
01:07:50یہ سب کچھ نہ خرگوش کی وجہ سے ہوا ہے
01:07:53وہ معصومیں سے بیٹھ پر بیٹھ کر
01:07:55سارا الزام خرگوش پر لگا چکی تھی
01:07:57ہائے میرا بیبی ہے کہاں
01:07:59کہیں دائم نے اسے معصوم کا جنازہ
01:08:01تو نہیں نکال دیا
01:08:02پریشانی سے باہر دائم تو
01:08:03کہیں بھی نظر نہیں آیا
01:08:05لیکن اسماعیل بابا کے ساتھ
01:08:09خرگوش کو دیکھ کر وہ فوراں اس کی طرف لگی
01:08:11میرے شاہ جی نے کچھ کہا تو نہیں
01:08:13آپ کو اسماعیل بابا
01:08:15وہ پریشانی سے پوچھنے لگی
01:08:17سب تو ازازہ شامر تو انہی کیانی تھی
01:08:19نہیں نہیں بیٹی رانی آپ کے شاہ جی
01:08:21نے کچھ نہیں کہا بلکہ وہ تو
01:08:23مسکراتے ہوئے نکل گئے اس کے
01:08:25میرے شاہ جی کہنے پر
01:08:27اسماعیل بابا نے مسکراتے ہوئے آپ کے شاہ
01:08:29جی کہا جس پر وہ شرما کر
01:08:31اپنا خرگوش لے کر اندر چلی گئی
01:08:33آج کے لئے اتنا ہی اور
01:08:35نیکٹ اپیسو لے کر میں کل پھر آپ کی
01:08:37حتمت میں حاضر ہوں گی تب تک کے لئے
01:08:39اللہ حافظ

Recommended