Skip to playerSkip to main contentSkip to footer
  • 5/18/2025
Sniper series episode 83 a story full of thrill and suspense operation in waziristan most deadly operation in waziristan
#sniper
#thrill
#danger
#Waziristan
#Pakistan
#Army

Category

😹
Fun
Transcript
00:00موسیقی
00:30موسیقی
01:00موسیقی
01:30موسیقی
02:00موسیقی
02:30موسیقی
02:32موسیقی
02:34موسیقی
02:36موسیقی
02:38موسیقی
02:39موسیقی
02:40موسیقی
02:56موسیقی
03:06الحال تو حمد نہیں ہے استاد جی
03:07البتہ کچھ عرصے بعد کوشش کروں گا
03:09کہ آپ کے حکم پر عمل کر پاؤں
03:11وہ ہس کر خاموش ہو گئے
03:12رات کافی بیٹ چکی تھی
03:14انہوں نے مجھے سونے کا مشورہ دیا اور چپ ساتھ لی
03:16پلوشہ کا متبادل کوئی لڑکی بھی نہیں ہو سکتی تھی
03:19البتہ گلگارے ایک ایسی لڑکی تھی
03:21جس سے شادی کرنے کا سوچا جا سکتا تھا
03:23مگر وہ بہت پہلے اپنی شادی کا بتا چکی تھی
03:25جینیفر بھی ایک بہترین انتخاب تھا
03:27لیکن وہ بھی کسی اور کی بن چکی تھی
03:29اور جس سے اس نے شادی کی تھی
03:31وہ اس سے بہت محبت کرتا تھا
03:32یوں کسی سے اس کی محبت چھیننا
03:34یقیناً خودغرزی اور بے حسی کی انتہا ہوتی
03:37ان دونوں کے علاوہ بھی ایک لڑکی
03:39میری زندگی کا حصہ بن چکی تھی
03:40کشمیری چرواہن رومانہ
03:42جو میری زندگی میں آنے والی تمام لڑکیوں سے زیادہ خوبصورت تھی
03:45گو پلوشہ مجھے بہت عزیز تھی
03:47اور بہت زیادہ پیاری بھی
03:48لیکن یہ حقیقت جھٹلانے کے قابل نہیں
03:50کہ رومانہ پلوشہ سے بھی زیادہ پرکشش اور خوبصورت تھی
03:53اور وہ میری زندگی میں پلوشہ سے پہلے آئی تھی
03:56یہ اور بات کہ جب وہ مجھے ملی
03:58تو اس سے چند ماہ پہلے ہی وہ کسی اور کی بن چکی تھی
04:00یہ الٹی سیدھی سوچیں نیند آنے تک میرے دماغ میں چکراتی رہی
04:04اگلے دو دن میں نے استاد عمر دراز کے پاس ہی گزارے تھے
04:07وہاں سے میں گھر آ گیا اور بکیا چھٹی عدیل کے ساتھ گزاری
04:10اسے بھی اپنی باجی کی موت کا علم ہو گیا تھا
04:12اس کے نیند نقش پلوشہ سے بہت زیادہ ملتے تھے
04:15اس لیے وہ میرے دل کے بہت زیادہ قریب تھا
04:17میں اس کی تعلیم و تربیت میں کسی قسم کی کمی نہیں دیکھنا چاہتا تھا
04:20اببو جان کو بھی وہ بہت زیادہ عزیز تھا
04:22ایک دن پھپو جان رات کے وقت میرے کمرے میں آئیں
04:24وہ بہت سنجیدہ لگ رہی تھی
04:26چند منٹ دائیں بائیں کی گفتگو کے بعد وہ مطلب کی بات پر آ گئیں
04:29بولی بیٹا ایک ضروری بات ہے
04:31میں نے کہا جی مجھے بھی کوئی ایسا ہی شک ہو رہا ہے
04:34بارحال حکم کریں
04:35میں ذہنی طور پر کسی انجان لڑکی کے رشتے کو ٹھکرانے کے لیے تیار ہو گیا تھا
04:39وہ بولی دیکھو بیٹا بورانا منانا
04:41مگر سچ تو یہ ہے کہ محلے میں دبی زبان میں
04:43گلناز بہن کی یہاں موجود کی پر باتیں ہو رہی ہیں
04:46میں حیران رہ گیا کیا مطلب
04:48وہ بولی بیٹا تم تو جانتے ہو کہ ہمارے معاشرے کی کیا ذہنیت ہے
04:51گلناز بہن چھوٹی لڑکی نہیں ہے
04:53نہ بھائی جان پر جوانی ٹوٹ پڑ رہی ہے
04:55لیکن باتیں کرنے والوں کی زبان کون پکڑ سکتا ہے
04:58میرا دماغ بھگ سے اڑ گیا تھا
04:59کوئی اتنی گھٹیا بات کیسے سوچ سکتا تھا
05:11کی طرح ہی سمجھتا ہوں
05:12پھپو جان جھجکتے ہوئے بولی جب سگی ماں سمجھتے ہو
05:15تو پھر سچ میں بنا کیوں نہیں لیتے
05:17میں حق لاکر خاموش ہو گیا مگر پھپو جان
05:19وہ بولی بیٹا میں مولوی صاحب سے بات کر چکی ہوں
05:21کوئی شریک قباحت نہیں ہے
05:23گلناز بہن کو بھی میں راضی کر چکی ہوں
05:25صرف آپ کی مرضی جاننی ہے
05:27میں نے کہا اور ابو جان وہ بولی انہوں نے میری بات کا کوئی جواب نہیں دیا
05:30لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں کوئی اعتراض ہیں
05:33میں حسا مطلب تمام کام مکمل ہے
05:35صرف میرا انتظار تھا
05:36بولی بیٹا اس طرح گلناز بہن کے دل میں
05:38یہاں رہنے کے بارے میں جو جھجک ہے
05:40وہ بھی ختم ہو جائے گی
05:41اعتراض کرنے والوں کو بھی اپنی بکواس کا خاطر خاط جواب مل جائے گا
05:45میں نے کہا پھپو جان آپ نے نہایت خوشی کی خبر سنائی ہے
05:48کل محلے کے چند بزرگوں کی موجودگی میں
05:50یہ بابرکت کام کر لیتے ہیں
05:51پھپو جان میرا ماتھا چوم کر رخصت ہو گئی
05:54صبح نماز کے لیے چاہتے ہوئے
05:55میں نے ابو جان کو شرارتی لہجے میں کہا
05:57ویسے آپ نے انہیں میرا اممہ جی کہنے کا بہت الٹا مطلب لیا ہے
06:00بہرحال کوئی بات نہیں
06:02وہ باپ تھے کہاں ہار ماننے والے تھے
06:04ترکی بہ ترکی بولے تو کیا کروں
06:05گھر میں ایک دلھن کی موجودگی تو ضروری ہے نا
06:08تم سے تو کچھ ہو نہیں سکتا
06:09اب میں بھی نامرد بن جاؤں
06:11میں قیقہ لگا کر ہس پڑا
06:12ویسے بہت بہت شکریہ ابو جان
06:14امی جان کی کمی بہت سختی سے محسوس ہو رہی تھی
06:17وہ تنزیہ لہجے میں بولے صحیح کا
06:19لیکن اس سے زیادہ کمی بہو کی محسوس ہو رہی ہے
06:21میں نے مسجد میں داخل ہونے کا بہانہ کرتے ہوئے
06:23ان کی بات کو نظر انداز کیا
06:25کہ مسجد میں دنیا کی باتیں کرنا سخت گناہ ہے
06:27وہ بولے جب نے کہا کہ سنت مسجد میں ادا ہو سکتی ہے
06:30تو شادی کی بات میں کوئی مذاقہ نہیں
06:32اس مرتبہ ان کی بات کا جواب دیے بغیر
06:34میں نے سنتوں کی نیت بانت لی
06:35کہ جان چھڑانے کا اس سے آسان طریقہ نظر نہیں آ رہا تھا
06:38اسی دن عشاء کی نماز کے بعد
06:40مولوی صاحب اور محلے کے چند معززین کی موجودگی میں
06:43یہ بابرکت کام سر انجام پا گیا تھا
06:46پلوشہ کی ماں کو میں پہلے بھی ماں کہتا تھا
06:48کہ ساس بھی ماں کا ہی درجہ رکھتی ہے
06:50لیکن اب تو وہ سچ میں میری ماں بن گئی تھی
06:52چھٹی کے بقیہ دنوں میں
06:54مجھے ابو جان اور امی جان کے چہروں پر
06:56چھائی آسودگی اتمنان اور خوشی دیکھ کر
06:58دلی سکون ملا
06:59پلوشہ کی ماں اور بھائی کو میں نے صرف ماں اور بھائی نہیں سمجھا
07:02بلکہ بنا بھی لیا
07:04پلوشہ کی ماں پہلے بھی میری ضروریات کا بہت خیال رکھتی تھی
07:07لیکن اس کے بعد تو ان کا رویہ
07:08سچ مچ ماں کے جیسا ہو گیا
07:10نجانے میری پلوشہ زندہ ہوتی تو
07:12اس شادی پر کتنا خوشی کا اظہار کرتی
07:14یقیناً وہ حلہ گلہ کیے بغیر نہ رہتی
07:16سردار اور میری چھٹی کٹھی ہی ختم ہوئی تھی
07:19واپسی پر اس کی حالت بلکل ویسی ہی تھی
07:21جو کبھی میری ہوا کرتی تھی
07:23ہر وقت لی زونہ یعنی مریم کی باتیں
07:25ہیڈ فون اس کے کانوں سے کم ہی اترا کرتا تھا
07:27مریم کے ساتھ مسلسل انگریزی بول کر
07:29اس کی انگریزی پہلے سے بہت بہتر ہو گئی تھی
07:31مریم بھی پشتو سیکھنے کی کوشش کر رہی تھی
07:34دونوں اس شادی سے خوش اور مطمئن تھے
07:36ایک دن انجان نمبر سے کال وصول کر کے
07:39مجھے گلگارے کی آواز سننے کو ملی
07:41پہچانتے ہوئے ہی میں نے شکوا کیا
07:42شکر ہے تمہیں یاد دہوں
07:44وہ دکھی آواز میں بولی آپ بھولے کب تھے
07:46وہ بولی شادی کے دوسرے دن ہی
07:47مجھے پلوشہ بہن کے مرنے کی خبر پہنچی
07:49آپ کے دوست کمانڈر عبدالحق چھٹی سے واپسی پر
07:52ابو جان کو پلوشہ بہن کے مرنے کی
07:54دلفگار خبر بتا کر آگے چلا گیا تھا
07:56میں گھر آئی تو چھوٹی بہن کی زبانی پتا چلا
07:59اس کے بعد ہمت نہ ہوئی کہ خان
08:00کلے جا کر آپ سے بات کر سکوں
08:02البتہ اب ہمارے گاؤں میں بھی موبائل فون کے سگنل آ گئے ہیں
08:04تو ہمت کر ڈالی
08:05میں نے پوچھا شوہر کیسا ہے
08:07وہ بولی بہت اچھا
08:08اتنا کہ شادی کرنے پر کوئی پچتاوہ نہیں ہو رہا
08:11میں نے پوچھا میری گڑیا بہن کیسے ہیں
08:12گل نے ہستے ہوئے کہا
08:13یہ لیں خود ہی بات کر لیں
08:15اگلے علم ہے میں چھوٹی بہن کی پرجوش آواز سن رہا تھا
08:18اس کے بعد سمر خان اور چچا شمریز سے بھی گپ شپ ہوئی
08:20آخر میں گل نے چند باتیں کہہ کر
08:22مجھے تسلی دی اور ملنے کی درخواست کی
08:24اسے اتمنان دلا کر میں نے
08:26الودائی کلمات کہے اور رابطہ منقطع کر دیا
08:28جنی بھی ہر دوسرے دن کال کرتی تھی
08:31سردار اور مریم کی شادی کا سن کر
08:32وہ مجھ سے کافی خفا ہوئی تھی
08:34لیکن رابطہ کرنا نہ چھوڑا
08:35میں زیادہ وقت تربیتی مشکوں میں گزارتا رہتا
08:38بھاگ دوڑ جمنیزیم فائرنگ وغیرہ کے شغل میں
08:41دن آسانی سے گزر جاتا
08:42میری نشان بازی پہلے سے بھی نکھر گئی تھی
08:44وزیرستان جاتے وقت
08:46ایس ایس میرا اور سردار دونوں کا کورڈ نام تھا
08:49لیکن اب یونٹ میں مجھے زیادہ تر لوگ
08:51ایس ایس ہی کہہ کر بلاتے تھے
08:52تعلق رکھنے والے افراد
08:54مجھے مختلف ناموں سے پکارتے
08:55لیکن راجو صرف پلوشے کہتی تھی
08:57زندگی میں ٹھہراؤ سا آ گیا تھا
08:59اور پھر اس ٹھہراؤ میں کنکر
09:01کماننگ آفیسر کے اردلی نے پھینکا
09:03اس وقت میں کینٹین میں بیٹھا
09:04سردار کو چھیڑ رہا تھا
09:06جب وہ مجھے بلانے وہیں آ گیا
09:07زیشان بھائی کماننگ آفیسر یاد کر رہے ہیں
09:09میں نے اس بات میں سر ہلا دیا آ رہا ہوں
09:11سردار نے سوال یا نظروں سے مجھے دیکھا
09:13میں لاعلمی کے انداز میں کندھے اچکاتے ہوئے کھڑا ہو گیا
09:16تھوڑے دیر بعد میں کماننگ آفیسر
09:18عرفان ملک صاحب کے سامنے کھڑا تھا
09:20بیٹھو
09:21میرے سلوٹ کا جواب سر کے اشارے سے دیتے ہوئے
09:23انہوں نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا
09:25اور جلدی جلدی سامنے کھلی فائل پر
09:27دستخط کرتے ہوئے کام نپٹانے لگے
09:29فائل میں موجود آخری کاغذ پر
09:31دستخط سبت کر کے انہوں نے
09:33فائل میز پر رکھی
09:34کام ختم ہونے کی مخصوص ٹرے میں پھینکی
09:36اور میری جانب متوجہ ہو کر مسکرائے
09:38بولے جوان میرا خیال ہے کہ تم نے کافی آرام کر لیا ہے
09:40اب اگر کام کی بات ہو جائے
09:42میں نے مودبانہ لہجے میں کہا
09:44سر یقینا یہ آپ کا حسان ہوگا
09:46وہ بولے شاباش
09:47وہ دیوار پر ٹنگی گھڑی پر نگاہ دوڑاتے ہوئے بولے
09:49تیاری کرو
09:50تمہارے پاس زیادہ سے زیادہ تین گھنٹے ہیں
09:52چار بجے کی فلائٹ سے
09:53تم رینج ماسٹر اپنے ساتھ لے کر گلگت جا رہے ہو
09:56باقی کی تفصیل تمہیں وہی معلوم ہو جائے گی
09:58گلگت ائرپورٹ پر ہمیں لینے کے لیے
10:00ایک یونٹ کی دو گاڑیاں آئی ہوئی تھی
10:02ایک فوجی چیپ اور دوسری سنگل کیبن
10:04گلگت میں روکے بغیر ہم نے آگے جانا تھا
10:07ہمیں خوش آمدید کہنے کے لیے
10:08آنے والوں کو ہمارے کام کے بارے میں
10:10کچھ معلوم نہیں تھا
10:11اس لیے ہم نے ان سے سر کبانے کی ضرورت
10:13محسوس نہیں کی تھی
10:14میرے ساتھ دوسرا سنائپر الیاس تھا
10:16وہ جہلم سے تعلق رکھنے والا
10:18ایک نوجوان سنائپر تھا
10:19اور پہلی بار کسی مشن پر یونٹ سے باہر آیا تھا
10:22وہ خاصہ پرجوش تھا
10:23رات کی گرمی یہاں نظر نہیں آ رہی تھی
10:25گلگت سے ہم نے جگلوٹ کا رخ کیا
10:28اور وہاں سے اسطور روانہ ہوئے
10:29نو بجے کے قریب ہم اسطور پہنچ گئے تھے
10:32رات وہیں آرمی کے مہمان خانے میں گزاری
10:34اور اگلے دن آٹھ بجے اسطور سے روانہ ہو گئے
10:36اسطور میں اچھی خاصی سردی محسوس ہو رہی تھی
10:39اور میں جانتا تھا کہ جیسے جیسے ہم آگے بڑھتے جاتے
10:42سردی میں اضافہ ہوتا جانا تھا
10:44سردار کے مشورے پر میں نے گرم کپڑے اپنے پاس رکھ لئے تھے
10:47الیاز بھی کوٹ وغیرہ ساتھ لینا نہیں بھولا تھا
10:49ائرپورٹ سے ہی میں نے ابو جان کو کال کر کے بتایا تھا
10:52کہ چند دنوں کے لیے ایسی جگہ جا رہا ہوں
10:54جہاں شاید بات نہ ہو سکے
10:56امی جان سے بھی بات کر کے میں دعائیں لینے میں سستی نہیں دکھائی تھی
10:59اس بار یونٹ سے نکلتے وقت راہ تصور صاحب نے
11:02مجھے خصوصی طور پر چند ہدایات کی تھی
11:04اسطور سے چلم اور وہاں سے برزل ٹاپ کی بلندی کا سفر تیہ کرتے ہوئے
11:08ہمیں تو پہر ہو گئی تھی
11:09برزل ٹاپ کے بعد مسلسل اترائی کا سفر شروع ہو گیا تھا
11:12اس علاقے میں میں پہلی بار آیا تھا
11:14اس لیے دلچسپی سے دائیں بائیں کا جائزہ لے رہا تھا
11:17یوں بھی دائیں بائیں کے مناظر دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے
11:19پہاڑوں سے میرا تعلق بہت پرانا ہے
11:21لیکن جہاں کے پہاڑ کچھ زیادہ ہی بلند تھے
11:24نہ جانے کیوں ان بلند پہاڑوں کو دیکھ کر
11:26پلوشے کی جادیں زیادہ ہی حملہ آور ہو گئی تھی
11:28یقینا ہم دونوں نے جتنا وقت اکٹھے گزارا تھا
11:31وہ پہاڑی علاقے میں ہی گزارا تھا
11:33اسی وجہ سے پہاڑوں کو دیکھتے ہی وہ دھم سے آنکھوں کے سامنے آگ گودتی
11:37دمبا باؤ کا طویل میدان تائے کر کے
11:39ہم شام ڈھلے مطلوبہ یونٹ کے بیٹیلین ہیڈکورٹر میں پہنچ گئے تھے
11:43سنا یہی ہے کہ دمبا باؤ بلندی پر موجود دنیا کا سب سے بڑا میدان ہے
11:47رات کا کھانا کھاتے ہی ہمارا بلاوہ آ گیا تھا
11:49یونٹ کے کمانگ آفیسر نے ہم دونوں کو اپنے کمرے ہی میں بلوا لیا تھا
11:53اردلی کو چائے کا بتا کر اس نے ہمیں بیٹھنے کا اشارہ کیا
11:56شکریہ کہہ کر ہم نے نشست سنبھال لی
11:58اس نے تصدیقی لہجے میں پوچھا تو زیشان حیدر آپ ہیں
12:01میں نے اپنے ساتھی کی طرف اشارہ کیا جی سر اور یہ الیاس ہیں
12:05وہ بولے ملک صاحب کی مہربانی کہ اس نے بہت جلد ہی آپ کو یہاں بھیج دیا
12:17یہ یبائے ہاتھ کا کھیل ہوگا
12:18لازمان میرے بارے میں انہیں ملک عرفان صاحب نے ہی ایسا کچھ بتایا تھا
12:22کہ وہ بار بار تعریفی نظروں سے مجھے گھورنے لگے
12:24میں انکساری سے بولا کام کے بارے میں سن کر ہی کچھ اندازہ لگا پائیں گے سر
12:28وہ تفصیل بتلاتے ہوئے بولے سردیاں شروع ہونے والی ہیں
12:31یہاں پر جولائی اگست اور ستمبر کے پہلے ہفتے تک
12:34ہم اپنی دور دراز پوسٹوں پر سال بھر کا راشن زخیرہ کروا دیتے ہیں
12:38یہ کام ویسے تو ہم سبل مزدوروں سے لیتے ہیں
12:40جو خچروں کے ذریعے تمام پوسٹوں پر راشن پہنچاتے ہیں
12:43لیکن دو پوسٹیں ایسی ہیں جہاں سبل لوگ راشن پہنچانے سے گھبراتے ہیں
12:47اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک تو دونوں پوسٹیں کافی بلندی پر واقع ہیں
12:50یعنی انیس ہزار فٹ کی بلندی کافی مانی رکھتی ہے
12:53اور دوسرا یہ وہ پوسٹیں ہیں جو کارگل جنگ میں ہم نے انڈیا سے چینی تھی
12:57اور معاہدے کے مطابق باقی علاقہ تو واپس کر دیا تھا
13:00لیکن ان دونوں پوسٹوں کو معاہدے میں شامل نہیں کیا تھا
13:03یہ دونوں پوسٹیں چونکہ ہم سے زیادہ انڈیا کی پوسٹوں کے قریب ہیں
13:06اس لیے وہ آئے دن ان پوسٹوں کو نشانے پر رکھتے ہیں
13:09عام دنوں میں تو ہمیں فائرنگ کے تبادلے میں کوئی خاص مسئلہ نہیں ہوتا
13:13البتہ راشن کی ترسیل کے دنوں میں ہمیں مشکلات بڑھ جاتی ہیں
13:16ان دونوں پوسٹوں پر فوجی جوانوں ہی کو راشن چڑھانا پڑتا ہے
13:19اور ایک جوان جب کندوں پر آٹے یا چینی کی بوری اٹھا کر مشکل چڑھائی تائے کر رہا ہو
13:24تب وہ فائر کا جواب نہیں دے سکتا
13:26بلکہ اس کے لیے تو اپنی جان بچانا بھی کافی دشوار ہو جاتا ہے
13:29ان دونوں پوسٹوں میں فہیم پوسٹ پر ہم راشن سٹور کر چکے ہیں
13:33البتہ خورم پوسٹ پر آدھے سے بھی کم راشن پہنچا پائے ہیں
13:37یہ تفصیل بتاتے ہوئے کمانگ آفیسر شہزاد اکبر اٹھ کر دیوار کے ساتھ ٹنگے ہوئے نقشے کے پاس پہنچے
13:42یہ فہیم اوپی ہے اور یہ خورم اوپی
13:44انہوں نے دو بلندیوں کی نشان دہی کی
13:47اور یہ انڈیا کی وہ دو پوسٹیں ہیں جہاں سے مسلسل فائر آتا ہے
13:50پہلے وہ یہاں آرٹلری کا فائر کرواتے تھے
13:53اور سچ کہوں تو آرٹلری کے فائر سے پھر بھی بچت ہو جاتی تھی
13:56آج کل انہوں نے اپنی ان دونوں پوسٹوں پر سنائپر بیٹھا رکھے ہیں
13:59اور جو ہمارے جوانوں کے لیے مسائل کھڑے کیے رکھتے ہیں
14:02اس مرتبہ ہم خورم اوپی پر چوتھائی سے بھی کم راشن زخیرہ کر پائے ہیں
14:06اور ہمارے پاس بس دس پندرہ دن ہی بچے ہیں
14:09اس کے بعد برف باری نے شروع ہو جانا ہے
14:11اور تب راشن کی ترسیل ناممکن ہو جائے گی
14:13میں بھی نشست چھوڑ کر ان کے قریب پہنچا
14:16اور نقشے پر نگاہ دوڑاتے ہوئے پوچھا
14:18اس زمن میں ہم دونوں کیا کر سکتے ہیں
14:20وہ بولے پرسوں آپ کے گماننگ آفیسر سر عرفان سے بات ہوئی ہے
14:23وہ میرے کورس میٹ ہیں
14:24ہم دونوں اکٹھے ہی پی ایم میں سے پاس آؤٹ ہوئے تھے
14:27دوران گپ شپ میں نے انہیں اپنا مسئلہ بتایا
14:30تب انہوں نے کہا کہ وہ اپنا ایک بہترین سنائپر میرے پاس بھیج رہے ہیں
14:33جو کسی بھی آدمی کو انیس سو میٹر سے بھی زیادہ فاصلے سے نشانہ بنا سکتا ہے
14:37میں نے کہا گویا آپ ہمیں انڈین سنائپرز کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں
14:41انہیں کہہ کر میں ان دونوں پوسٹوں کا انڈیا کی پوسٹوں سے فاصلہ ناپنے لگا
14:45شہزاد اکبر صاحب بتا رہے تھے
14:47انڈیا کی ایک پوسٹ فارورڈ ون اور دوسری کو ٹرپل سیون کہتے ہیں
14:52اس کی بلندی سترہ ہزار سات سو ستتر فٹ ہے
14:55اور ون سیون ٹرپل سیون کو مختصر کر کے ٹرپل سیون کہتے تھے
14:58آپ دونوں میں سے ایک کو خرم اوپی اور دوسرے کو فہیم اوپی پر جا کر
15:02دشمن کے سنائپر کو مو توڑ جواب دینا پڑے گا
15:05میں نے کہا میرا خیال ہے یہ کام ہم فہیم اوپی پر جا کر بہتر طریقے سے انجام دے سکیں گے
15:10یوں بھی ہم سنائپرز جوڑی میں کام کرتے ہیں
15:12اور میرا ساتھی پہلی مرتبہ میدان میں آیا ہے
15:15اسے میں اکیلا نہیں بھیج سکتا
15:16کرنل صاحب موتریز ہوئے
15:18مگر فہیم اوپی سے ٹرپل سیون کا فاصلہ دو ہزار سے زیادہ بنتا ہے
15:22میں اتمنان سے بولا سر یہ میرا دردے سر ہے
15:24آپ ہمیں کل کا دن دیں
15:25اور پرسو انشاءاللہ آپ اپنی راشن زخیرہ کرنے والی پارٹی چلانا شروع کر دیں
15:29انہوں نے پوچھا اور کل
15:30میں نے کہا کل چند جوان خالی جھولے لے کر اوپر چڑھائی چڑھیں گے
15:34تاکہ فائر شروع ہونے کے بعد خود کو آڑ میں رکھ کر محفوظ کر سکیں
15:38یہ جوان بس دشمن کے سنائپرز کے لیے بطور چارہ پیش کیے جائیں گے
15:41وہ بولے تم دونوں کس وقت نکلو گے
15:43میں نے پوچھا یہاں سے فہیم اوپی کا فاصلہ کتنا ہے
15:46وہ بولے فاصلہ تو کافی ہے
15:47مگر اس کی بنیاد تک آپ کو گاڑی چھوڑ آئے گی
15:50اور اس سے آگے بھی تین چار گھنٹے لگ جاتے ہیں
15:52میں نے کہا تو ہم ابھی نکلیں گے
15:54انہوں نے حیرانی ظاہر کی کیا
15:56میرا خیال ہے آج رات آپ آرام کر لیں
15:58میں نے مسکراتے ہوئے کہا سر آرام ضرور کرتے
16:00مگر ہمارے پاس وقت نہیں ہے
16:02جتنا جلدی اپنے کام پر لگیں گے اتنا ہی بہتر ہے
16:04یوں بھی مزدور پیشہ لوگ کام ملنے کے بعد
16:07آرام کی بجائے کام ختم کرنے میں دلچسپی رکھتے ہیں
16:09وہ بولے یہ سن کر اچھا لگا
16:11انہوں نے تعریفی انداز میں گردن ہلائی
16:13چائے پی کر ہم شہزاد صاحب کے کمرے سے نکل آئے تھے
16:16انہوں نے بیٹیلین کے صوبے دار میجر صاحب کو بلا کر
16:19ہمارے آگے جانے کے حکامات دے دئیے تھے
16:21ایک گھنٹے بعد ہم اپنے سامان کے ساتھ جیپ میں بیٹھ چکے تھے
16:24گو ہمارے لیے آرام کرنا مناسب تھا
16:27لیکن میں چاہتا تھا کہ الیاس کی تھوڑی تربیت ہو جائے
16:29ایک سنائپر کو سخت جان اور پرمشقت زندگی کا عادی ہونا چاہیے
16:33طویل پہاڑی سفر کے بعد انسانی جسم آرام کا طلبگار ہوتا ہے
16:36مسلسل جاگنے سے انسان چڑچڑا ہو جاتا ہے
16:39اور صحیح کام کرنے کے قابل نہیں رہتا
16:41لیکن سنائپرز کی تربیت میں انہیں مسلسل بے آرام رکھ کر
16:45ان کے چڑچڑے پن کو دور کرنا ہوتا ہے
16:47ایک زیرے تربیت سنائپر کو گھنٹوں نہیں
16:49بلکہ دنوں کے حساب سے جگا کر مقصد پورا کرنے کے قابل بنایا جاتا ہے
16:53نیند کے بارے میں کہاوت مشہور ہے کہ نیند سولی پر بھی آ جاتی ہے
16:56لیکن اس کے ساتھ یہ بھی حقیقت ہے
16:58کہ سنائپر کو جب تک وہ خود ہی نہ سونا چاہے
17:01اپنی مچان پر نیند نہیں آنا چاہیے
17:03ہمارا یہ مشن کافی آسان تھا
17:05اور میں نہیں چاہتا تھا کہ اس آسان مشن کی چھاپ الیاس پر ایسی پڑے
17:09کہ وہ ہر مشن کو یوں ہی آسان اور آرام دے سمجھتا رہے
17:12گو وقت آنے پر اسے معلوم ہو جاتا
17:14مگر اس وقت شاید وہ ذہنی طور پر تیار نہ ہوتا
17:16اور ایسا ہونے کی صورت میں یقیناً اپنا نقصان کر بیٹھتا
17:20جبکہ اپنے شاگرد کو میں یوں ہی نقصان اٹھانے کے لیے نہیں چھوڑ سکتا تھا
17:24اپنے پہلے مشن میں میں نے اپنے محترم استاد صادق کو شہید ہوتے دیکھا تھا
17:28اس نے اپنی جان دے کر میری جان بچائی تھی
17:30اور اسی مشن کا اثر تھا
17:31کہ بعد میں مجھے ہر قسم کے حالات کو برداشت کرنا آ گیا تھا
17:34گوہالیا مشن میں جان جانے جیسا تو کوئی معاملہ نظر نہیں آ رہا تھا
17:38لیکن میں الیاس کو بے آرام تو رکھ سکتا تھا
17:40تاکہ اسے بھی معلوم ہو کہ عملی زندگی تربیت سے مشکل ہوتی ہے
17:44ہم دو گھنٹوں کے ڈرائیونگ کے بعد فہیم اوپی کے بیس میں پہنچ گئے تھے
17:48اس کا بیس بھی سطح سمندر سے چودہ ہزار فٹ بلند تھا
17:51جبکہ اس کی بلندی انیس ہزار فٹ تھی
17:53گوہالیا پانچ ہزار فٹ کی بلندی ہم نے پیدل تیہ کرنا تھی
17:56رات کا ایک بج رہا تھا جب ہم نے فہیم اوپی کے بیس سے اپنا سفر شروع کیا
18:01سردی ٹھیک ٹھاک طریقے سے حال پوچھ رہی تھی
18:03تیز ہوا گوہالیا اٹھا اٹھا کر پھینک رہی تھی
18:05ہمارے ساتھ آنے والے جوانوں نے الیاس سے رینج ماسٹر کا جھولا لینے کی کوشش کی
18:10مگر میں نے انہیں یہ وزن اٹھانا ہماری ذمہ داری ہے دوست کہہ کر منع کر دیا
18:23اگلا ایک گھنٹہ میں نے اس کے ہمراہ ایسی مناسب جگہ ڈھونڈنے میں گزارا
18:27جہاں ہم رینج ماسٹر کو لگا کر فائر کر سکتے
18:30مجھے یقین تھا کہ ہندو بنیے نے اتنے صویرے نہیں اٹھنا تھا
18:33اس لیے میں زیادہ دیر الیاس کے ساتھ باہر نہ رہا اور رہائشی بنکر میں گھس گیا
18:37اس میں کوئی شک نہیں کہ مصنوعی طور پر خود کو کتنی ہی مصیبت اور جوکھم میں مبتلا رکھو
18:42وہ حقیقت سے میل نہیں کھاتی
18:44اب الیاس کی خوش قسمتی تھی یا بد قسمتی
18:46لیکن اسے پہلا مشن نہائی تھی آسان مل گیا تھا
18:49رہائشی بنکر میں لکڑی کے تختے زمین سے تھوڑا بلندی پر لگا کر سونی کی جگہ بنائی گئی تھی
18:54ہم دونوں قریب قریب پڑے بستروں میں گھس گئے
18:56میں نے کہا ایک خاص بات بتاؤں الیاس
18:58میری طرف کروٹ تبدیل کرتے ہوئے وہ بولا جی استاد جی
19:01میں نے کہا جانتے ہو جب میں اپنے پہلے مشن میں گیا تھا
19:04اس وقت استاد صادق میرے ہمرا تھے
19:06جاتے ہوئے رستے میں ہی ان کا پاؤں زخمی ہو گیا تھا
19:09مشن کی تکمیل کے بعد ہم دونوں ایک درخت پر چھپے بیٹھے تھے
19:12تب ہی استاد صادق نے مجھے اپنے پہلے مشن کی کہانی سنائی
19:15جس میں ان کے استاد حاشم نے اپنی جان پر کھیل کر
19:18اپنے شاگرد کو جان بچانے کا موقع دیا تھا
19:20یہ کہانی سنانے کے اگلے دن استاد صادق نے مجھے پانی لانے کے بہانے بھیجا
19:24اور جب میں چھپ کر دشمن کے گھیرے سے نکل گیا
19:26تب انہوں نے دشمن پر فائر کھول دیا
19:29میں چاہ کر بھی ان کی مدد سے قاسر تھا
19:31کیونکہ انہوں نے سنائیپر رائفل کی تمام گولیاں میرے جھولے سے نکال لی تھی
19:35واپسی پر جب استاد راو تصور صاحب کو میں نے یہ واقعہ سنایا
19:38تب انہوں نے بڑی عجیب بات بتائی
19:40کہ استاد صادق کے استاد حاشم کو بھی
19:42ان کے استاد نے اپنے پہلے ہی مشن میں
19:44اسی طرح دشمن کے نرغے میں آنے سے بچایا تھا
19:47اس نے حیرانی سے پوچھا
19:48اس بات کا کیا مطلب ہوا استاد جی
19:50میں نے مسکراتے ہوئے کہا اس بات کا مطلب یہ ہے
19:53کہ روایت کے مطابق میرا اس مشن میں شہید ہو جانا لازمی ہے
19:56کیونکہ یہ سلسلہ کافی دور سے چلا رہا ہے
19:58لیکن اس مشن کی صورتحال دیکھتے ہوئے
20:01تو مجھے نہیں لگتا کہ کچھ ایسا پیش آئے گا
20:03وہ گھبرا کے بولا اللہ پاک نہ کرے ایسا ہو سر
20:05میں نے کہا کیوں یار
20:14میں نے نفی مصر ہلایا ایسا میں نے کب کہا
20:17اس کے لہجے میں حیرانی تھی
20:19تو آپ کی بات کا مطلب کیا ہوا
20:21میں نے کہا یار میری بات کا مطلب تھا
20:23کہ خاص سنائپرز کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے
20:25ایک مخصوص زنجیر ہے
20:26یعنی میرے استاد صادق
20:28ان کے استاد حاشم
20:29ان کے استاد گل خان
20:31ان کے استاد بشیر
20:32اور اب تمہیں میرے ہمراہ بھیج دیا گیا ہے
20:34دوران تربیت بھی تم میرے خصوصی شاگرد رہے ہو
20:36اور جانتے ہو استاد تصور نے آتے وقت
20:39میرے کان میں یہی کہا تھا
20:40کہ وہ میرے لئے خصوصی دعا کریں گے
20:42وہ اعتماد سے بولا انشاءاللہ
20:44اس بار یہ زنجیر ٹوٹ جائے گی
20:46اور یوں بھی آپ کی جان مجھ سے بہت قیمتی ہے
20:48آپ ہمارا سرمایہ ہیں استاد جی
20:50میں نے کہا اچھا تھوڑا آرام کر لو
20:52اسے آرام کا مشورہ دیتے ہوئے
20:53میں نے آنکھیں بند کر لی
20:54یوں بھی مجھے موت کا خوف پہلے بھی نہیں تھا
20:57اب تو مرنا ایک مزاق ہی لگتا تھا
20:59پلوشہ کی جدائی بہت عذیتناک اور تکلیفتے تھی
21:02ایک دم جب اس کی سوچیں دماغ پر حملہ آور ہوتیں
21:05ہر طرف اندھیرہ اور ظلمت ہی نظر آتی
21:07میں نے کوشش کی کہ ان سوچوں کو جھٹک کر کچھ دیر آرام کر لوں
21:10کیونکہ ہم نے تین چار گھنٹوں سے زیادہ آرام نہیں کیا تھا
21:13تو دوستو یہ تھی ہماری آج کے اپیزورڈ
21:18امید کرتے ہیں آپ کو ہماری کہانی پسند آئی ہوگی
21:20جانے سے پہلے اس ویڈیو کو لائک کیجئے
21:22اور شیئر کرنا مت بھولئے
21:23کومنٹ کر کے ہمیں بتائیے کہ آپ کو ہماری ویڈیو کیسی لگی
21:26اور اگر ابھی تک آپ نے اس چینل کو سبسکرائب نہیں کیا
21:29تو اسے سبسکرائب کیجئے
21:31اور پہلے ایکن دبا کر
21:32all notifications on کر لیجئے

Recommended