Skip to playerSkip to main contentSkip to footer
  • 6/5/2025
یقیناً! یہاں "بغداد کا تاجر" کی ایک مکمل لیکن مختصر کہانی بمعہ سبق اور تفصیل (description) اردو میں پیش کی جا رہی ہے:

---

### **کہانی: بغداد کا تاجر**

بغداد کا ایک نیک دل تاجر تھا جو ہمیشہ سچ بولتا اور ایمانداری سے کاروبار کرتا۔ ایک دن وہ سفر پر نکلا اور اپنا سارا مال ایک دوست کے پاس امانت رکھ کر چلا گیا۔ واپسی پر جب اُس نے امانت واپس مانگی، تو دوست نے انکار کر دیا اور کہا کہ کوئی مال اسے دیا ہی نہیں گیا۔

تاجر عدالت گیا، لیکن ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے جج بھی فیصلہ نہ کر سکا۔ تاجر نے ہار نہیں مانی۔ اُس نے ایک چالاکی سے کام لیا۔ اس نے اپنے ملازم کو اس کے دوست کے پاس بھیجا اور کہا کہ جاؤ، اس سے کہو کہ میں بھی اُسے کچھ مال امانت کے طور پر دینا چاہتا ہوں، لیکن پہلے یہ پوچھو کہ کیا وہ امانت رکھتا ہے یا نہیں۔

جب ملازم نے یہی کیا، تو اُس شخص نے فوراً کہا: "ہاں ہاں، میں بہت امانت دار ہوں۔ ابھی بھی میرے پاس فلاں تاجر کی امانت پڑی ہے!" یہ سن کر تاجر گواہوں کے ساتھ وہاں پہنچا اور اسے رنگے ہاتھوں پکڑ لیا۔ اس نے اپنی امانت واپس لی اور جھوٹے شخص کو سب کے سامنے شرمندہ کیا۔

---

### **سبق:**

سچائی، صبر اور عقل مل کر ناانصافی کو شکست دے سکتے ہیں۔ ہمیشہ ایمانداری سے کام لینا چاہیے، اور مشکل وقت میں ہوشیاری سے کام لینا اہم ہوتا ہے۔

---

### **تفصیل (Description):**

یہ بغداد کے ایک نیک تاجر کی سچی اور سبق آموز کہانی ہے، جو امانت داری اور عقل مندی کے ذریعے اپنی کھوئی ہوئی امانت واپس لیتا ہے۔ کہانی ہمیں سچ، صبر اور ہوشیاری کا درس دیتی ہے۔

---

Category

📚
Learning
Transcript
00:00بسم اللہ الرحمن الرحیم السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
00:05مطمسامین بغداد کا تاجر اور بچوں کی عدالت کی ایک اور اپیسوڈ میں آپ سب کو خوش آمدید کہتے ہیں
00:13اور آج کی ویڈیو میں ہمارا ٹوپک ہے عدالت کے روح بدو
00:15علی نے اپنے دوست تاجر شگیل کو سمجھانے کی بہت کوشش کی تاکہ وہ حقیقت کا اعتراف کر لے
00:21اس نے سلح اور آشتی کا ہر حربہ ازمایا بڑے ہی عدب و اعترام اور نرم لہجے سے گفتگو کی
00:27لیکن اسے کوئی کامیابی نہ ملی
00:29تاجر اسے جھوٹا قرار دینے پر مصر رہا
00:32علی بابا نے جب یہ دیکھا کہ یہ سرکشی پر اترا ہوا ہے
00:35سلح اور آجنی اور اتفاق و اتحاد کی طرف مائل ہی نہیں ہوتا
00:39حالانکہ اس کی خیانت اور سرکشی ظاہر بھی ہو چکی ہے
00:43تو علی نے اس کو نصیحت کرتے ہوئے کہا
00:45میرے دوست میں سلح اور آجنی اور اتفاق کو پسند کرتا ہوں
00:48میں کوئی سخت روائیہ نہیں اپنانا چاہتا
00:51مجھے آپ کی شہرت داغدار ہونے کا اندیشہ ہے
00:54لیکن جب میں دیکھتا ہوں کہ آپ اپنی جد اور ہٹ درمی پر ڈٹے ہوئے ہیں
00:58تو مجھے بڑا غصہ آتا ہے
00:59میرا غصہ کہیں تمہاری بدنامی کا باعث نہ بن جائے
01:03تم رسوائی اور عذاب کو آواز نہ دو
01:05اس بات کو اچھی طرح ذرنشین کرلیں
01:07کہ آپ بڑے مشہور تاجر ہیں
01:09تمہاری امانت دیانت اور استقامت کا دور دور تک شہرہ ہے
01:12اپنی اس شہرت کی حفاظت کریں
01:15اس پر کوئی آنچ نہ آنے دیں
01:17تمہاری کامیابی کے بنیاد ہی تو یہی ہے
01:19اگر لوگوں میں تمہاری خیانت مشہور ہوگی
01:22تو لوگ تیرے ساتھ کاروباری لیندین کرنے سے گریز کریں گے
01:26لوگوں کے دلوں میں تیرے خلاف نفرت بڑھ جائے گی
01:28تیری تجارت کو نقصان پہنچے گا
01:31میں یہ نہیں چاہتا کہ تجھے یہ برا انجام دیکھنا پڑے
01:33لیکن اگر میں تمہارے اس رویے سے معیوس ہو گیا
01:37تو مجھے اپنا حق وصول کرنے کے لئے
01:39مجبوراً عدالت کا دروتہ کھٹکانا پڑے گا
01:41تم جانتی ہو کہ میں تمہارا دوست ہوں
01:44میں نے تم پر اعتماد کیا
01:45برائے مہربانی آپ میرے اعتماد کو ٹھیس نہ پہنچائیں
01:48میرے دوست دیکھو اور سمجھنے کی کوشش کرو
01:52میں تو اس بات کو ترجیح دیتا ہوں
01:54کہ آپ سے صرف اپنا حق وصول کروں
01:56میں نہیں چاہتا کہ قاضی کے پاس شکرات لے کر جاؤں
01:59اور لوگوں میں تیری رسوائی کا سبب بنوں
02:01تاج شکیل نے علی بابا کی نصیت قبول کرنے سے صاف انکار کر دیا
02:06بلکل اس طرح کہ جس طرح اس نے اپنی بیوی کی نصیت کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا
02:10وہ اپنی اعناد اور خیانت پر ڈٹا رہا
02:14اس نے اپنی دوست علی سے کہا دیکھو علی
02:16تم نے خود اپنے ہاتھ سے زیتون کا مٹکہ میرے گودام میں رکھا
02:21تم نے خود اسے اپنے ہاتھ سے پکڑا
02:23اور میرے گودام سے کہیں دور اٹھا کر لے گئے
02:25بتاؤ اس کے بعد اب تجھے کیا حق پہنچتا ہے کہ مجھ سے ایک ہزار دینار کا مطالبہ کرو
02:30جب تم نے مٹکہ میرے گودام میں رکھا
02:33اس وقت مجھے یہ بتایا کہ کیا اس میں ایک ہزار دینار ہیں میرے دوست
02:38اب آخر تم مجھ سے کیا چاہتے ہو
02:40مجھے نہیں بتا کہ اس مٹکے میں کیا تھا
02:43میں نے اسے کبھی نہیں کھولا
02:44بلکہ مجھے یہ بھی نہیں بتا کہ اس میں زیتون ہے
02:47یا زیتون کے راوہ کوئی اور چیز ہے
02:49میں نے کبھی اس مٹکے میں جھانک کر بھی نہیں دیکھا
02:52کہ اس میں کیا ہے
02:52میں نے نہ تیرے سفر پر جانے سے پہلے اسے کھولا
02:56اور نہ ہی بات میں
02:56آخر مجھے کیسے علم ہو سکتا تھا کہ اس میں دینار ہیں
02:59مجھے نہیں بتا کہ تم سچے ہو یا جھوٹے
03:01اللہ کی قسم جب تم ایک ہزار دینار کا دعویٰ کرتے ہو
03:04تو مجھے آپ پر بڑا تاجب ہوتا ہے
03:06آپ نے یہ دعویٰ کیوں نہیں کر دیا
03:09کہ یہ مٹکہ موتیوں اور جواہرات سے بڑا ہوا تھا
03:12جھوٹ اگر بول نہیں ہے
03:13اور لوگوں پر اگر جھوٹا الزام لگا نہیں ہے
03:16تو ترہا کھل کر لگاؤ
03:17جو چاہو سزا دے دو
03:18اور بھی کھل کر کھیلو لیکن مجھ سے قسم لے لو
03:21میں اپنی بات میں سچا ہوں
03:23میں نے تیرے مٹکے کا مو نہیں کھولا
03:25میں جو کہتا ہوں سے سچ مانو
03:27یا جھوٹ تم ازاد ہو
03:28آپ کو اختیار ہے
03:29اب میرا آپ سے مطالبہ یہ ہے
03:32کہ تم اپنی رالو
03:33تم نے مجھے بہت تن کیا
03:34کہ انہوں نے لوگوں کا مجمع میری دکان کے سامنے لگا دیا
03:37یہاں سے چلو
03:39دیکھ لیا تمہاری دوستی کو
03:40کہاں سے آ جاتے ہو
03:41مجھے ستانے کے لئے
03:43علی بابا اور تاجہ دونوں
03:45اونچی آواز سے باتیں کر رہے تھے
03:47ان دونوں کے درمیان
03:48جھگڑا شدت اختیار کر گیا
03:49گزرنے والے کچھ لوگ دکان کے سامنے جمع ہو گئے
03:53تاجہ شکیل کے پڑوسی تیزی سے
03:55ان کی دکان کی طرف آیا
03:56اور باہمی جھگڑے کا سبب پوچھا
03:58ان کی دلی چاہت یہ تھی
04:00کہ دونوں کے دمیان صلح کر آ دی جائے
04:02علی بابا نے انہیں اپنی تمام کہانی سنائی
04:06جب انہوں نے ساری داستان سننی
04:10تو پھر وہ تاجہ شکیل کی طرف متوجہ ہوئے
04:13اس سے معاملے کی حقیقت دریافت کرنے لگے
04:14اس نے پڑوسیوں کو بتایا
04:16علی بابا یہ تو ٹھیک کہتا ہے
04:18کہ میں نے اس کا مٹکہ اپنے گودام میں رکھا
04:20قبول کر لیا
04:21لیکن اس کے لئے وہ یہ جو بھی کہتا ہے
04:23وہ سب جھوٹ کا پلندہ ہے
04:24پھر اس نے ان کے سامنے
04:26اللہ کی قسم اٹھا دی
04:27کہ اسے بالکل اس بات کا علم نہ تھا
04:29کہ مٹکے میں کیا ہے
04:30علی بابا کے بتانے پر
04:32مجھے پتا چلا کہ اس میں زیتون ہے
04:33میرے ساتھیوں
04:34تم گواہ رہنا
04:36آج علی بابا نے جو میرے ساتھ
04:37سلوک کیا ہے
04:38وقت آنے پر تمہیں اس کی گواہی دینا ہوگی
04:40پڑوسی نے کہا
04:41ہاں ہاں آپ فکر نہ کریں
04:42ہم آپ کے ساتھ ہیں
04:43یہ سرسل زیادتی ہے
04:45جو علی بابا نے تم پر کی ہے
04:46یہ ڈرامہ دیکھ کر
04:48علی بابا کو اور جیدہ غصہ آیا
04:49اس نے تاج شکیل سے کہا
04:51تم اپنی حقیقی توہین
04:53اس وقت دیکھ لو
04:53کہ جب میں قاضی کی عدالت میں
04:55تیری شکایت کروں گا
04:56پھر تیری آنکھیں کھلیں گی
04:58وہاں تجھے یہ انکار
04:59کچھ فائدہ نہیں دے گا
05:00تجھے اپنے کیے پر ندامت ہوگی
05:02لیکن اس وقت
05:03ندامہ تجھے کوئی فائدہ نہیں دے گی
05:05چلو میرے ساتھ
05:08قاضی کی عدالت میں
05:09تاکہ وہ ہمارے درمیان فیصلہ کرے
05:10تاکہ قاضی برے کو
05:12اس کی برائی کی سزا دے
05:13اور حق دار کو
05:14اس کا حق سنبے
05:14علی بابا اور تاج شکیل
05:17عدالت کی طرف روانہ ہوئے
05:19وہاں پوچھ کر
05:19دونوں قاضی کے سامنے
05:20عدالت کے کٹھڑے میں کھڑے ہو گئے
05:22علی بابا اور قاضی کے درمیان
05:24یوں بات چیت ہونے لگی
05:25علی بابا
05:27جناب اس تاجر نے
05:29میرے ایک ہزار دینار چوری کیے ہیں
05:30قاضی
05:32اس نے تیرے پاس سے
05:33دینار کس طرح سے چوری کیے ہیں
05:34کیا تیرے پاس کوئی گواہ ہے
05:36علی بابا نہیں
05:37میرے پاس کوئی گواہ تو نہیں
05:40میرے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا
05:42کہ میرے ساتھ یہ خیانت کا ارتکاب کرے گا
05:44میں اس کو نہائی شریف آدمی سمجھتا تھا
05:46پھر اس کی خیانت مجھ پر ظاہر ہو گئی
05:49اس کے بارے میں میرے گمان خات میں مل گئے
05:52قاضی
05:52تاجر شکیل کی جب دیکھتے ہوئے سے دریافت کرتا ہے
05:55تم اس الزام کے بارے میں کیا کہتے ہو
05:57تاجر شکیل
05:58اپنا دفاع انہی الفاظ میں کرتے ہوئے
06:01کہ جو اس نے پڑوسیوں سے کہے تھے
06:02جنابِ علی
06:03یہ شخص اپنے دعوے میں بالکل چھوٹا ہے
06:06اس نے میرے پاس مٹکہ امانہ دن رکھا
06:08لیکن میں نے کبھی اس کو کھولا نہیں
06:10مجھے قطن کوئی پتہ نہیں
06:12کہ اس میں کیا چیز ہے
06:14البتہ اس نے مجھے یہ بتایا
06:15کہ اس میں زیتون ہے
06:16میں نے سچ مان لیا کہ اس میں زیتون ہی ہوگا
06:19تاجر شکیل اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے
06:22جناب میں اپنے بیان میں سچا ہوں
06:24اگر آپ چاہیں تو میں قسم دینے کے لئے اتیار ہوں
06:26قاضی
06:27آپ حلف اٹھا کر کہیں کہ میں اپنے بیان میں بالکل سچا ہوں
06:30تاجر شکیل
06:32قاضی کے سامنے حلف اٹھاتے ہوئے
06:34میں اللہ کی قسم اٹھاتا ہوں
06:36کہ میں نے مٹکہ نہیں کھولا
06:37اور نہ ہی اس میں کوئی چیز دیکھی
06:38قاضی شہر نے جب تاجر شکیل کی زبان سے قسم سننی
06:44تو اسے الزام سے بڑی کر دیا
06:45اور علی بابا کی طب دیکھتے ہوئے کہا
06:47تاجر شکیل نے قسم دے دی ہے
06:49اب تیرے اس پر کوئی حق نہیں
06:51وہ اس الزام سے بڑی ہے جو تُو نے اس پر لگایا ہے
06:54تیرے پاس کوئی دلیل ہی نہیں
06:56اور نہ ہی کوئی گواہی ہے
06:57کہ جس سے یہ ثابت ہو سکے
06:58کہ تم اپنے دعوے میں سچے ہو
07:00علی بابا نے قاضی کا فیصلہ سنا
07:03تو بہت نراز ہو
07:04اور کہنے لگا جنابِ علی
07:05اس نے میرا مال چُرائے ہے
07:07یہ بڑی کیسے ہو سکتا ہے
07:08میں اپنی شکایت خلیفہ حارون رشید سے کروں گا
07:11تاکہ وہ میرا حق واپس دلائیں
07:13اور مجھے انصاف مہیا کہے
07:14قاضی بڑا بردبار سابر اور حسن والا تھا
07:18ولی بابا کی باتوں سے نراز نہیں ہوا
07:20اسے یہ علم تھا
07:22کہ جس شخص کے حق میں فیصلہ نہ ہو
07:23تو وہ یوں ہی غصے کا اظہار کیا کرتا ہے
07:25قاضی نے اسے توہینِ عدالت پر
07:28کوئی سزا تو نہ دیں
07:29البتہ اسے صرف یہی کہا تھا
07:31کہ اب آپ عدالت سے تشریف لے جا سکتے ہیں
07:33قاضی کا خیال تھا
07:35کہ اس نے اپنا فرش ادا کر دی ہے
07:37کیونکہ الزام کے ثبوت میں
07:38کوئی دلیل اس کے سامنے پیش نہ کی گئی
07:40علی بابا کے حق میں
07:42کوئی گواہی دینے والا بھی نہیں تھا
07:45تاجر شکیل عدالت سے بائزت بری ہو کر
07:47خوشی خوشی باہر آیا
07:48اسے زیادہ خوشی اس بات کی تھی
07:50کہ اس نے علی بابا کے ایک ہزار دینار بھی
07:52ہتھیالیے تھے
07:53مزید رسوائی اور سزا سے بھی بچ گئے تھا
07:55علی بابا عدالت سے غصے میں نکلا
07:58وہ مایوس نہ ہوا
07:59اس کا یہ خیال تھا
08:00کہ اگر حقدار صبر اور تحمل سے
08:02اپنی حق کے مطالبے میں ڈٹا رہے
08:05تو بالاخر اسے حق ملی جاتا ہے
08:07علی بابا نے اپنی شکایت
08:10خلیفہ حارون رشید کے دربار میں لکھ پھی دی
08:12جیسا کہ اس دور میں رواج تھا
08:14کہ جب کسی مظلوم کی عدالت میں دادرسی نہ ہوتی
08:16تو وہ اپنی شکایت خلیفہ وقت کے دربار میں کر دیا کرتا
08:19علی بابا نے اپنی درخواست میں
08:22ظلم و ستم کی وہ ساری تفصیل لکھ دی
08:24جو اس کے ساتھ تاجہ شکیل کی جانم سے پیش آئی تھی
08:26جمعہ کے دن علی بابا اس مسجد میں گیا
08:29جہاں خلیفہ حارون رشید نماز جمعہ ادا کرتا تھا
08:33نماز ختم ہوئی
08:34تو بابا جلدی جلدی اس را پر آ کر کھڑا ہو گیا
08:36جہاں سے خلیفہ نے گزرنا تھا
08:38خلیفہ کی سواری جب بابا کی قریب آئی
08:41تو اس نے اپنے ہاتھ بلند کیا
08:42حفاظی دستے کا سربراہ آگے بڑھا
08:44اس کے پاس آیا اور اس سے درخواست وصول کر لی
08:46حفاظی دستے کا سربراہ کا یہ معمول تھا
08:49کہ جب خلیفہ اپنے دربار میں پہن جاتا
08:51تو وہ تمام درخواستیں اس کی خدمت میں پیش کر دیا کرتا
08:54جو اسے راستے میں وصول ہوتی
08:56تاکہ وہ آرام سے شکایت کا
08:58ازالہ کرنے کی خاطر اپنے حکامہ جاری کر سکے
09:01علی بابا کوئی علم تھا
09:02کہ خلیفہ کا طریقہ کار یہ ہے
09:04کہ وہ پہلے اپنی تمام درخواستوں کو
09:06بڑی توجہ سے پڑھتے ہیں
09:07اور پھر ہر درخواست کو نپٹانے کے لیے
09:10وقت کا اعلان کرتے ہیں
09:11اور فریقین کو دروار میں طلب کیا جاتا ہے
09:14علی بابا ایک روز خلیفہ حالون رشید کے
09:19محل کے دروازے پر جا کر کھڑا ہو گیا
09:21حفاظی دستے کا سربراہ
09:23اس کے پاس آ کر کہیں لگا
09:24خلیفہ حضور نے کل آپ کو محل میں طلب کیا ہے
09:27تاکہ تمہارا فیصلہ سنا دے
09:29پھر اس نے تاج شکیل کا رہاشی پتہ پوچھا
09:31جو علی بابا نے اسے بتا دیا
09:33اور واپس آ گیا
09:33حفاظی دستے کے سربراہ نے تاج شکیل کو بھی
09:37اطلاع کر دی کہ وہ کل خلیفہ حالون رشید
09:39کے دربار میں پہن جائے
09:40مطمسامین
09:42اس سے آگے کیا ہوتا ہے
09:44ہم آپ کو اگلی ویڈیو میں بتائیں گے
09:46آج کی ویڈیو ہم یہی بمکمل کرتے ہیں
09:48اپنا خیال رکھے گا
09:49اللہ حافظ

Recommended