Skip to playerSkip to main contentSkip to footer
  • 6/13/2025
Ittehad e Ummat | Host: Dr. Muhammad Tahir Mustafa

#aryqtv #islam #Ittehadeummat

Join ARY Qtv on WhatsApp ➡️ https://bit.ly/3Qn5cym
Subscribe Here ➡️ https://www.youtube.com/ARYQtvofficial
Instagram ➡️ https://www.instagram.com/aryqtvofficial
Facebook ➡️ https://www.facebook.com/ARYQTV/
Website ➡️ https://aryqtv.tv/
Watch ARY Qtv Live ➡️ http://live.aryqtv.tv/
TikTok ➡️ https://www.tiktok.com/@aryqtvofficial
Transcript
00:00ڈاکٹر محمد طاہر مصطفیٰ
00:30ناظر کرام آج جو ہمارے پروگرام کا موضوع ہے وہ یہ ہے کہ ایک اسلامی ریاست جو ہوا کرتی ہے وہ کس طرح سے اتحاد امت کی زامن ہوا کرتی ہے
00:42ناظر کرام جو ہمارا دین اسلام ہے یہ محض اقیدہ نہیں ہے محض ایمان نہیں ہے اقیدہ اور ایمان اس کی بنیاد تو ہو سکتی ہے
00:53لیکن اس بنیاد کے اوپر جو امارت کھڑی ہوتی ہے وہ ہماری معیشت ہے وہ ہماری معاشرت ہے وہ ہمارے بنیادی حقوق ہیں وہ ہمارے اخلاقیات ہیں وہ ہماری سیاسیات ہیں
01:04ناظر کرام اس امارت کو دین کہتے ہیں اور اس دین میں جو ریاست کا کردار ہے وہ ماں کی طرح ہے
01:14جس طرح ماں کبھی اپنی اولاد کو بھوکا نہیں رکھتی اپنے موہ سے نکال کر لکمہ ان کو کھلا کر سوتی ہے
01:22کبھی اولاد کے لیے دھوپ برداشت نہیں کرتی ان کو چھاؤں میں رکھتی ہے خود دھوپ کی تپش برداشت کرتی ہے
01:30یہی ریاست کا کردار ہوا کرتا ہے ناظر کرام اپنی ریایہ کے لیے
01:35بنیادی حقوق کی وہ زامن ہوا کرتی ہے لیکن ان بنیادی حقوق کو جب ادا نہیں کیا جائے گا
01:43تو پھر امت کا ہر فرد اپنے طور پہ کوشش کرے گا چھیننے کی جھپٹنے کی
01:51اور جب یہ کیفیت پیدا ہوگی تو امت کا اتحاد پارا پارا ہو جائے گا
01:55ناظر کرام آج کے پروگرام میں ہم یہی گفتگو کرنے والے ہیں
01:59کہ کس طرح سے ریاست امت کو متحد رکھتی ہے
02:04اور اس موضوع پہ گفتگو کرنے کے لیے جو ہماری مہمان شخصیات ہیں
02:08ناظر کرام میری دائیں جانب ایک مرتبہ پھر تشریف لائے ہیں
02:11جناب ڈاکٹر محمد صاد صدیقی
02:15آپ ماشاءاللہ استاز ہیں پنجاب یونسٹی میں آپ ڈائریکٹر رہے
02:18اس وقت آپ جامعہ دار التقوی میں شیخ الحدیث ہیں
02:21اور جامعہ دار العلوم اسلامی میں استاز الحدیث ہیں
02:25السلام علیکم ورحالی اللہ علیکم
02:26کیسے مزاج ہیں
02:28اور ناظر کرام میری وائن جانب تشریف رکھتے ہیں
02:31جناب محمد اکمل خان
02:34آپ ماشاءاللہ دنیاوی اعتبار سے
02:37اصری علوم میں بھی آپ دسترس رکھتے ہیں
02:39کمیونکیشن میں آپ کی سکلز ہیں
02:42لیکن قرآنیات آپ کا متعلیہ ہے
02:45اور آپ کا بطور خاص تخصص ہے
02:48السلام علیکم ورحالی اللہ علیکم
02:49کیسے مزاج ہیں
02:51اور ناظر کرام ان کے ساتھ تشریف رکھتے ہیں
02:53جناب آغا انوار حسین سید
02:57ماشاءاللہ آپ بھی
02:58اصری علوم سے آراستہ ہیں
03:00اور دینی علوم سے بھی آراستہ ہیں
03:03پروگرام کی زینت ہیں
03:04السلام علیکم ورحالی اللہ
03:05علیکم السلام ڈاکس صاحب بہت شکریہ آپ کا
03:08بہت شکریہ
03:09ڈاکس صاحب
03:10پروگرام اتحاد امت ہے
03:12ہم مختلف پہلوں سے جائزہ لے رہے ہیں
03:15اس پروگرام میں
03:16کہ کس طرح سے
03:18اس امت کو ہم یکجا کر سکتے ہیں
03:21ہم دیکھتے ہیں کہ
03:22زبان کے اعتبار سے
03:24عقیدے کے اعتبار سے
03:26فروعی اختلافات کے اعتبار سے
03:28یہ امت آج
03:30رکھنا رکھنا ہو چکی ہے
03:32اس کا شیرازہ بکھر چکا ہے
03:34ہم ان نقطوں کو جوننے کی کوشش کر رہے ہیں
03:37اس پروگرام کے ذریعے سے
03:38اب ان کوششوں میں
03:40کچھ ذمہ داریاں بھی ہیں
03:42جو مختلف
03:44اس امت کے لوگوں پر
03:47گروہوں پر آئد ہوتی ہیں
03:48اور ان میں سے
03:50ایک ذمہ داری ریاست پر آئد ہوتی ہے
03:53وہ چونکہ ماں کی طرح ہوا کرتی ہے
03:55تو وہ کیسے اپنی ریایہ کو متحد رکھ سکتی ہے
03:58رکھ سب ریایہ کے کچھ حقوق ہوتے ہیں
04:02جن کو ہم دوسرے لفظوں میں انسانی حقوق بھی کہتے ہیں
04:05انسانی حقوق میں چاہتا ہوں
04:08سب سے پہلے آپ اس کو ڈیفائن کریں
04:09وہ کیا ہیں
04:10اور پھر انسانی حقوق کی پرویین میں
04:13ایک درجہ ہے مساوات کا
04:15ایک درجہ ہے عدل کا
04:17مساوات کہاں تک ہے
04:19اور عدل کی حد کہاں سے شروع ہوتی ہے
04:21بہت اہم اور بہت وسیع موضوع ہے
04:31اور ایسا موضوع ہے
04:34کہ اس پر اگر ہم گھنٹوں بھی گفتگو کرتے رہیں
04:36تو شاید حق ادا نہ ہو
04:39بہت اختصار کے ساتھ جو بات آپ نے پوچھی ہے
04:44اس کے متعلق ارز کروں
04:45جہاں تک انسانی حقوق کی بات ہے
04:49تو شریعت اسلامیہ میں
04:53دو باتیں بڑی اہم ہیں
04:54جو انسانی حقوق کے حوالے سے
04:57بنیادی طور پر سمجھنی ضروری ہے
04:59اور وہ یہ ہیں کہ
05:02قرآن کریم کا اسلوب دیکھیں
05:04یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
05:08کی حیات مبارکہ اور آپ کی سیرت متحرہ
05:11کا اسلوب دیکھیں
05:11وہاں حقوق کی بجائے
05:16ذمہ داریوں کی بات زیادہ کی گئی
05:19اور ذمہ داریوں کا احساس دلایا گیا
05:22ہم بچپن سے سنتے آ رہے تھے
05:27ایک مقولہ یا ایک محاورہ
05:30کہ حقوق اور فرائض کا چولی دامن کا ساتھ ہوتا ہے
05:35اب آ کے پتہ چلا ہے
05:38کہ اس کا مطلب کیا ہے
05:40بچپن میں ہم نے یہ سنتو لیا تھا
05:43یاد بھی کر لیا تھا
05:44رٹ بھی لیا تھا
05:45لیکن اب آ کر بڑھاپے میں پتہ چلا ہے
05:48کہ اس کا مطلب کیا ہے
05:49کہ شریعت اسلامیہ نے
05:53اصل میں ذمہ داریوں کا احساس دلایا
05:56اور وہ ذمہ داریوں کا جب احساس دلاتا ہے
06:00تو ایک طبقہ جب اپنی ذمہ داریاں ادا کرتا ہے
06:03تو دوسرے طبقے کے حقوق خود بخود ادا ہو جاتے ہیں
06:06اچھا
06:07اگر آپ حقوق کی زیادہ بات کریں نا
06:10تو اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے
06:12کہ حقوق کے مطالبے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے
06:14حقوق چھیننے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے
06:17پہذا یہاں مثال کے طور پر
06:20والدین کے حقوق جہاں بیان کرنے ہیں
06:21قرآن حکیم نے
06:22وہاں والدین کو خطاب نہیں ہوا
06:25کہ تمہارا یہ حق ہے
06:26اولاد کے ذمہ
06:27تمہارا یہ حق ہے
06:28اولاد کے ذمہ
06:29اولاد کو مخاطب کیا
06:30کہ والدین کے حوالے سے
06:32تمہاری یہ ذمہ داری ہے
06:33یہ ذمہ داری ہے
06:34یہ ذمہ داری ہے
06:35اب اولاد اپنے فرائض
06:37اور اپنی ذمہ داریاں ادا کرے گی
06:40والدین کے حقوق ادا ہوتے چلے جائیں گے
06:42ایک تو یہ بات
06:44دوسری بات یہ ہے
06:46کہ انسانی حقوق
06:48یا جس کے لئے آج کل
06:49ہمیں اصطلع استعمال کرتے ہیں
06:51ہیومن رائٹس
06:52اس کے لئے جو شریعت اسلامیہ نے
06:56اصطلع استعمال کی ہے
06:58وہ بڑی خوبصورت اصطلع ہے
07:00اور وہ اسطلع ہے حقوق العباد
07:03عباد عبد کی جمع ہے
07:06اور عبد غلام ہوتا ہے
07:09غلام کا مطلب یہ ہے
07:11کہ وہ اپنی مرضی سے کچھ نہیں کر سکتا
07:13جو آقا کہے گا وہ کرے گا
07:15میں اور آپ
07:17اللہ کے غلام ہیں
07:18اللہ کے بندے ہیں
07:20عبداللہ عبدالرحمن ہیں
07:21ہم اللہ کے غلام ہیں
07:23اللہ جو کہے گا
07:25اللہ کا رسول جو کہے گا
07:27ہمیں وہ کرنا ہے
07:28لہذا ہمارا وہ حق ہے
07:30کہ جو اللہ اور اللہ کے رسول نے ہمیں دیا ہے
07:34ہم اس سے آگے نہیں بڑھ سکتے ہیں
07:36اب یہاں
07:38ان حقوق کی
07:39ادائیگی
07:40یا پاسداری
07:41کا معاملہ جب آتا ہے
07:42تو جیسے آپ نے فرمایا
07:45کہ ایک حد ہے
07:46جہاں تک مساوات ہے
07:48اور ایک حد ہے
07:49جہاں سے عدل شروع جاتا ہے
07:51میں تھوڑا سا اس سے
07:53مختلف بات
07:55یا مختلف رائے رکھتا ہوں
07:57آپ سے معذرت کے ساتھ
07:59اور وہ مختلف رائے یہ ہے
08:02کہ دیکھئے جیسے آپ نے بھی یہ بات فرمائی
08:06اپنے ابتدائی گفتگو میں
08:07کہ اسلام جو ہے وہ ایک مذہب نہیں ہے
08:10بلکہ ایک پورا دین ہے
08:12پورا نظام حیات ہے
08:14ایک پورا نظام زندگی ہے
08:16اور اس نظام زندگی کے جو مختلف گوشے ہیں
08:20وہ معاشرت کا نظام ہو
08:22وہ اخلاق کا نظام ہو
08:24وہ عبادات کا نظام ہو
08:25وہ سیاست کا نظام ہو
08:27وہ معیشت کا نظام ہو
08:29معاشرت کا نظام ہو
08:30سارے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں
08:33یوں سمجھ لیجئے کہ جیسے ایک زنجیر ہوتی ہے
08:36زنجیر کی ایک کڑی دوسری کڑی سے دوسری تیسری سے
08:39اور چوتھی ایک زنجیر لمبی بن جاتی ہے
08:41یہ
08:43پورا appropriate
08:45Im 뭐
08:49a
08:59Up
09:01up
09:06up
09:10andVE
09:13the thing that
09:16joseph
09:20abdem
09:23J Shield
09:25if you've come to
09:26there is significant
09:30and when you've come to
09:32your gaze
09:34no one
09:35but actually
09:37and leave
09:40.
10:09.
10:10مشاوات نہیں ہے
10:11یہ عدل کا عملی نفاز ہے
10:14عدل کا جب
10:15عملی نفاز ہوتا ہے
10:17تو وہاں اگر دو آدمیوں کا
10:19دو افراد کا
10:20یا دو طبقات کا
10:21مقام ایک ہے
10:22تو انہیں برابر برابر
10:23رکھا جاتا ہے
10:24وہ برابر برابر
10:26جو رکھا جاتا ہے
10:27وہ مشاوات کے
10:28تقاضے کے تحت نہیں
10:29عدل کے تقاضے کے تحت ہے
10:31نظر وہ مشاوات آتی ہے
10:33تو اس لیے
10:34یہ بات
10:35سمجھنی ضروری ہے
10:37کہ اسلام کا جو
10:38نظام حیات ہے
10:39وہ حقوق و فرائض کا نظام ہو
10:41وہ معاشرت کا نظام ہو
10:43معیشت کا نظام ہو
10:44جو بھی نظام ہے
10:46اس کی بنیاد عدل ہے
10:48اور وہ عدل اس طرح قائم ہوتا ہے
10:51کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
10:52ایک بڑے خوبصورت فقرے میں
10:54سارے معاشرے کو بتا کر رکھ دیا
10:57اور یہ کہا کہ
10:59مَن لَمْ يَرْحَمْ صَغِيرَنَا وَلَمْ يَوْقِرْ كَبِيرَنَا فَلَيْسَ مِنَّا
11:03جو ہمارے چھوٹوں کے ساتھ
11:05رحم نہیں کرتا
11:06شفقت نہیں کرتا
11:08اور جو ہمارے بڑوں کی عزت نہیں کرتا
11:10وہ ہمیں سے نہیں
11:11تو اس کے معنی یہ ہوئے
11:13کہ اصل میں انسانی حقوق کی جو تقسیم ہے
11:16اور اس کا جو عملی نفاظ ہے
11:19وہ اس بنیادی اصول کے تحت ہوگا
11:22کہ رحم عالی صغار
11:23یعنی چھوٹوں کے ساتھ شفقت
11:25اور رحم کا معاملہ ہوگا
11:27اور بڑوں کی عزت اور بڑوں کی توقیر کا
11:30اور ان کے احترام کا معاملہ ہوگا
11:31آپ کی جانسے میں بریک لے لوں
11:33ناظرین کرام بہت اہم گفتگو ہے
11:35وقفہ ہے
11:36پروگرام اتحاد امت میں
11:38اے آر وائی ٹیو ٹی وی لاہور سٹوڈیوز ہے
11:40اور وقفے میں ہم دیا کرتے ہیں
11:42دربار رسالت میں
11:43اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اکتس پر
11:45والہانہ انداز میں
11:46درود کریم کا نظرانہ پیش کرتے ہیں
11:48وقفے کے بعد ناظرین کرام دوبارہ
11:51آپ کی خدمت میں حاضر ہیں
11:52اے آر وائی ٹیو ٹی وی لاہور سٹوڈیوز ہے
11:54اور ہمارا پروگرام ہے
11:55اتحاد امت
11:56جنابی اکمل خان صاحب
11:58ہم حقوق کی بات کر رہے ہیں
12:01جب تک انسانیت کو اس کے حقوق نہیں ملیں گے
12:04وہ یکجہ نہیں رہ سکتی
12:06اتفاق سے نہیں رہ سکتی
12:08اتحاد سے نہیں رہ سکتی
12:10یکجائی کے ساتھ
12:11محبت اور آفیت کے ساتھ نہیں رہ سکتی
12:13اب جب حقوق کی بات ہوتی ہے
12:16تو ایک وہ حقوق ہیں جو فرد کے ذمہ ہیں
12:19ایک وہ حقوق ہیں جو خاندان کے ذمہ ہیں
12:24ایک وہ حقوق ہیں جو معاشرے کے ذمہ ہیں
12:27اور ایک وہ حقوق ہیں جو ریاست کے ذمہ ہیں
12:30اب ریاست جو ہوتی ہے
12:34جب حقوق ادا کرتی ہے
12:35تو اس سے معاشرہ خاندان اور فرد
12:38ان میں جوڑ پیدا ہوتا ہے
12:40ان میں اتفاق پیدا ہوتا ہے
12:41اتحاد پیدا ہوتا ہے
12:43پھر ان میں بھی کچھ ایسے بنیادی حقوق ہیں
12:46مثلا روٹی کپڑا مکان
12:49یہ ایک سیاسی نعرہ نہیں ہے
12:52میں سمجھتا ہوں یہ فطرت کا نعرہ ہے
12:54نہ کسی جماعت کا نعرہ ہے
12:56بلکہ یہ فطرت کا نعرہ ہے
12:58ہر شخص کو روٹی ملنی چاہیے
13:00ہر شخص کا علاج ہونا چاہیے
13:02ہر شخص کو کپڑا ملنا چاہیے
13:04تن ڈھامپنے کے لیے
13:05ہر شخص کو رہنے کے لیے گھر ملنا چاہیے
13:07اچھا یہ روٹی کپڑا مکان
13:10تعلیم علاج
13:11یہ بھی بنیادی حقوق ہے انسانیت کے
13:13کیا یہ فرق کی ذمہ داری ہے
13:16کیا یہ معاشرے کی ذمہ داری ہے
13:18کیا یہ ریاست کی ذمہ داری ہے
13:20کہ یہ بنیادی حقوق
13:22اگر وہ دے دے
13:23تو کیا اس میں
13:24ڈاکٹر صاحب صاحب ہی میں نے یہی ارز کیا تھا
13:26انہوں نے اس پہ بڑی خوبصورت گفتگو کی آغاز کیا
13:30آپ بھی اسی میں ایٹ کی جئے گا
13:32کہ ریاست کہاں تک ذمہ دار ہیں
13:34ان بنیادی حقوق کی فراہمی کے لیے
13:37ریایہ کو
13:38شکریہ جناب ڈاکٹر صاحب بسم اللہ الرحمن الرحیم
13:41جی بنیادی طور پہ جو ہمارا دین ہے
13:44وہ دین فطرت ہے
13:45انسان کی جتنی بھی ضروریات ہیں
13:47ان ضروریات کے پورا ہونے کا زامن
13:50جو ہے نا وہ ہمارا دین ہے
13:51اور اسی کے تحت جو ہے نا دین
13:54تمام جو ہے وہ
13:55قوانین بھی لاغو کرتا ہے
13:57اور تمام اس طرح کے جو معاشراتی
13:59تشکیلات کے حوالے سے جو بھی حکامات ہیں
14:01وہ ٹائم ٹو ٹائم ہمارے پاس آتے رہے ہیں
14:04تو اگر ہم بات کریں جو موجودہ فی زمانہ
14:07جو ہے نا کون کون سے جو بنیادی حقوق ہیں
14:10جو ریاست کی ذمہ داری ہیں
14:11تو اس میں ہمیں فی زمانہ
14:13جو سب سے زیادہ ریسرچ نظر آتی ہے
14:15وہ حضرت امام شاہ ولی اللہ دہلوی کی نظر آتی ہے
14:18ابھی اثر حاضر کے اندر
14:19کہ جہاں پہ انہوں نے
14:21قرآن مجید اور احادیث مبارکہ کی روشنی کے اندر
14:24فی زمانہ جو حقوق ہیں
14:26ریاست کے ذمہ وہ انہوں نے تشکیل دیئے
14:28اور وہ پانچ ہیں
14:29اس میں جو نمبر ون جو حقوق ہے
14:32وہ حق زندگی ہے
14:33اللہ تعالیٰ بھی قرآن مجید میں فرماتے ہیں
14:36کہ کسی کو قتل مت کرو
14:38اور سوائے اس کے
14:40کہ اس کا احکامات اللہ تعالیٰ کی طرف سے
14:42جس طرح سے واضح کیے گئے ہیں
14:43ان کے علاوہ کسی کی جان لینا
14:45کسی کی جان کو ختم کر دینا
14:48یہ بالکل بھی
14:49جو ہے وہ قابل قبول نہیں ہے
14:51معاشرے کے اندر
14:52اور دوسرا پھر ہم دیکھتے ہیں
14:54کہ حق ازادی ہے
14:55کہ ایک جو انسان ہے
14:58وہ بالکل ازاد ہے
14:59اس کا رنگ کوئی بھی ہو
15:01اس کا مذہب کوئی بھی ہو
15:03اس کی نسل کوئی بھی ہو
15:04اس کے اوپر عقیدہ نہیں آپ تھوپ سکتے
15:06ایک جو ریاست ہے
15:08وہ یہ نہیں کہہ سکتی
15:08کہ تم یہ عقیدہ اختیار کرو
15:10تم یہ مذہب اختیار کرو
15:11تو وہ انسان جو ہے
15:13وہ اس کے اندر
15:14لا اقرحہ فی الدین
15:15دین کے اندر جبر نہیں ہے
15:17وہ اس کے اندر
15:17اپنے اختیاری طور پر
15:18اس کو اڈاپٹ کر سکتا ہے
15:20اور پھر تیسرے نمبر پر
15:21ہمیں نظر ہی آتا ہے
15:23کہ تحفظ
15:24تحفظ کی بات کی گئی ہے
15:26کہ انسان کا جو تحفظ ہے
15:28وہ ریاست کے ذمہ ہے
15:30وہ ریاست اس کو جواب دے ہے
15:32اور اس کو دینے کی زامن ہے
15:34کہ جہاں پہ بات آتی ہے
15:36حقوق کی
15:36تو پھر یہ بات کی جاتی ہے
15:38کہ تم میں سے ہر شخص جو ہے
15:41وہ اپنی رعیت کے متعلق
15:42جواب دے ہوگا
15:43جس شخص کو
15:45جس درجے کا بھی اختیار حاصل ہوگا
15:47وہ اس درجے کے اندر
15:48قیامت کے دن جواب دے ہے
15:49کہ اس نے وہ اپنے اختیارات کو
15:51کیسے استعمال کیا
15:52تو اسی طریقے سے
15:53جب ہم آگے بڑھتے ہیں
15:54تو ہمیں چوتھے نمبر پر
15:55عدل نظر آتا ہے
15:56کہ جہاں پہ
15:57قرآن مجید کے اندر بھی
15:59اور احادیث مبارکہ کے اندر بھی
16:01جگہ جگہ یہ ارشاد فرمایا گیا
16:02کہ عدل اختیار کرو
16:03عدل سے کام لو
16:04اب جب عدل کی بات آتی ہے
16:06تو وہاں پہ
16:07بات یہ آتی ہے
16:08کہ اس کے اندر درجات
16:10کا جو فرق آتا ہے
16:11اس کے تحت
16:12عدل کی
16:13عدل کو اختیار کرنا ہوتا ہے
16:15جہاں پہ ہم بات کریں گے
16:16مساوات
16:17مساوات تو سب کے لیے
16:18ایک جیسی ہے
16:19وہ چاہے جو ہے نا
16:20اندھا ہو
16:21وہ بہرا ہو
16:22وہ گورا ہو
16:24وہ کالا ہو
16:24کسی بھی مذہب سے ہو
16:26وہ انسان ہے
16:27اور اس کو
16:27انسانی درجے کے اندر
16:28برابر کی مساوات
16:29اس کو حاصل ہیں
16:31اس کی مثال
16:31آپ ایسے لے سکتے ہیں
16:32کہ جیسے
16:33ایک ڈرائیونگ کا
16:34جو امتحان ہے
16:35تو
16:36اس کے اندر
16:37جو ہے نا
16:38عدل تو یہ ہے
16:39کہ جو نابینہ ہے
16:40اس کو آپ
16:41ڈرائیونگ کا امتحان
16:42کے اندر نہیں بٹھا سکتے
16:43اس کو
16:43ڈرائیونگ کا امتحان
16:44وہ پاس نہیں کر سکتا
16:45لیکن
16:46چونکہ وہ انسان ہے
16:47تو اس کو جو
16:48اس کے جو
16:49بنیادی حقوق ہیں
16:50وہ اس کو
16:50ملیں گے
16:51یہ ایسے ہی ہے
16:52جیسے کسی شخص کی
16:52جو بھوک ہے
16:53وہ
16:53اس کا جسہ زیادہ ہے
16:55وہ
16:56اس کا ویٹ زیادہ ہے
16:57تو وہ
16:58قد اس کا بڑا ہے
16:58تو اس کو
16:59بھوک زیادہ ہے
17:00تو اس کو
17:00زیادہ روٹی چاہیے
17:01اپنی جسمانی
17:01ضروریات پوری کرنے کے لئے
17:02اور ایک شخص کمزور ہے
17:03تو اس کو
17:04کم روٹی چاہیے
17:05لیکن
17:06بنیادی طور پر
17:07مساوات
17:08یہ کہ دونوں
17:09انسان ہیں
17:09اور پھر عدل کا
17:10تقاضی یہ ہے
17:11کہ جس کو
17:11زیادہ چاہیے
17:12اس کو زیادہ ملے
17:12اور جس کو
17:13کم چاہیے
17:13اس کو کم ملے
17:14تو یہاں پہ
17:14اس شک کی بھی
17:16نفی ہو جاتی ہے
17:17کہ جو بات کی جاتی ہے
17:18کہ اسلام کے اوپر
17:19کہ جی اسلام کا نظام
17:20سرمایہ دارانہ ہے
17:21یا وہ جو ہے نا
17:23ابھی جو موجودہ
17:23کمیونس جو
17:24نظریات چل رہے ہیں
17:25اس کے حوالے سے ہے
17:26تو یہ دونوں جو
17:27نظامات ہیں
17:28یہ دونوں ایکسٹریمز ہیں
17:29تو اسلام کا جو نظام ہے
17:31وہ این عدل کے اوپر
17:32اور این مساوات کے اوپر ہے
17:33تو یہ تو ہمارا
17:34چوتھا جو بنیادی حق تھا
17:36جو ریاست کی
17:36ذمہ داری ہے
17:37ادا کرنے کی
17:37جب ہم پانچویں حق کی
17:39بات کرتے ہیں
17:39جو ریاست کی
17:40ذمہ داری ہے
17:41وہ ہمیں نظر یادتا ہے
17:42کہ حق تعلیم ہے
17:43کہ جہاں پہ
17:44آپ صلی اللہ علیہ وسلم
17:45کی حدیث بھی ہے
17:46کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم
17:47نے فرمایا
17:47کہ جو علم حاصل کرنا
17:49وہ ہر مسلمان
17:51اور مرد عورت پر فرض ہے
17:52اس کے اندر مطلب
17:53یہ تقسیم بھی نہیں ہے
17:54کہ یہ عورت کے اوپر
17:55فرض نہیں ہے
17:55صرف مردوں کے اوپر فرض ہے
17:56تو یعنی
17:57کہ جب اس کی فرضیت
17:58ہو گئی
17:58تو پھر ریاست کے اوپر
17:59بھی یہ ذمہ داری آئے دوتی ہے
18:01اس کے اوپر بھی فرض ہوتا ہے
18:02کہ وہ یہ جو
18:02تعلیم کا حق ہے
18:03وہ ان لوگوں
18:05ان تک پہنچائے
18:06اور ان کو مہیا کرے
18:07تو یہ بنیادی
18:08جو ہے نا
18:08اس کے اندر
18:09ذمہ داری ہیں
18:10آغاز صاحب
18:10ساری گفتگو میں
18:12جو میرا نکتہ نظر
18:13تھا
18:15یا ہے
18:15وہ میں ارز کرتا ہوں
18:18کہ یہ میں نے سوال
18:19اس دعویے سے
18:20ارز کیا تھا
18:21آپ سب کے سامنے
18:23کہ بنیادی حقوق
18:25کا ایک تصور
18:26جو ہے نا
18:26وہ یہ ہے
18:27جیسے میں نے ارز کیا نا
18:28روٹی
18:29کپڑا
18:30مکان
18:31یہ ہر شخص کی
18:32ہر انسان کی
18:33بنیادی ضرورت ہے
18:34چوتھا
18:35تعلیم
18:36اور پانچمہ
18:37علاج
18:37میں سمجھتا ہوں
18:39کہ یہ وہ پانچ حقوق ہیں
18:40آپ سے انڈورسمنٹ
18:41لینا چاہتا ہوں
18:42کہ وہ پانچ حقوق ہیں
18:44جس کی پرویئن
18:46ریاست کی
18:46ذمہ داری ہے
18:47ہر شخص کو
18:49کھانا مہیا کرے
18:50اس لیے حضرت
18:51عمر بن خطاب
18:52رضی اللہ تعالیٰ عنہ
18:53کا یہ قول مشہور ہے
18:54کہ میرے دور سلطنت میں
18:55اگر کتہ بھی
18:56بھوکا مر گیا
18:57تو عمر سے پوچھ ہوگی
18:58انسان تو
18:59بہت دور کی بات ہے
19:00تو ہر شخص کو
19:01کھانا ملنا چاہیے
19:02پہننے کے لیے
19:03تن ڈھامتنے کے لیے
19:04شرم و حیاء کا تقاضہ ہے
19:05لباس ملنا چاہیے
19:07کوئی بھی آسمان کے
19:08نیچے نہیں رہ سکتا
19:09اس کو گھر ملنا چاہیے
19:10کوئی بھی
19:11یہ فطرت کے خلاف ہے
19:13کہ بیمار ہو
19:13اس کا علاج ہونا چاہیے
19:14مسلمان ہو
19:15یا غیر مسلم
19:16اور ہر شخص کو
19:18علم
19:18اقل و شعور کے
19:19استعمال کے لیے
19:20علم حاصل ہونا چاہیے
19:21میں سمجھتا ہوں
19:22کہ یہ پانچوں
19:23ذمہ داریاں
19:24ریاست کی ہیں
19:24اس کے بعد
19:25جب ریاست
19:26ذمہ داری
19:34اس کے بعد
19:37میرے خیال میں
19:38عدل کی حد شروع ہوتی ہے
19:40کہ ریاست نے
19:41سب کو
19:42مسابات کے ساتھ
19:42برابری کے ساتھ
19:43دے دیا
19:44جو اس کا حق تھا
19:45اب وہ کوشش کرے
19:46اب وہ جد و جہد کرے
19:48اب وہ کمائے
19:48ہم نے
19:52اس اہل کر دیا ہے
19:53کہ زمانے میں
19:54معاشرے میں
19:55اپنا کردار ادا کرے
19:56اب جو کچھ وہ کرے گا
19:57جو کچھ کمائے گا
19:58وہ اس کا ہوگا
20:00اب عدل کا تقاضہ ہے
20:01اب عدل کی
20:02اپلیکیشن ہوگی
20:03آپ کیا فرماتے ہیں
20:04جی ڈاکٹر سب
20:05بسم اللہ الرحمن الرحیم
20:06الحمدللہ رب العالمین
20:08والصلاة والسلام
20:09علیہ اہلہ
20:10ریاست
20:13کا کردار
20:15حقوق کی
20:17ادائیگی میں
20:18یا حقوق کی
20:19ان کے اہل تک رسائی میں
20:21سورہ مبارکہ
20:23نساء ہے
20:24اور
20:25مالک لم یزل
20:26فرما رہا ہے
20:27کہ ان اللہ
20:28یامرکم
20:29انتودل
20:31امانات
20:32علیہ اہلہ
20:33جو بھی
20:36اس معاشرے میں
20:37تمدن میں
20:38اکائی ہے
20:38وہ ایک گھر ہے
20:39یا ایک ریاست ہے
20:41میگا لیول پہ
20:42میکرو لیول پہ
20:43دونوں جگوں پہ
20:45جو حاکم ریاست ہے
20:47یعنی
20:47ریاست کے
20:48امال ہیں
20:49ان کے ذمہ داری یہ ہے
20:51کہ وہ
20:51امانت کو
20:52ان کے اہل تک
20:53پہنچا دیں
20:54اور پھر آگے
20:56حکم ہو رہا ہے
20:57اسی سورہ نساء کی آیت میں
20:58وَإِذَا حَكَمْتُمْ بَيْنَ النَّاسِ جَبْ تُمْ انسانوں کے مابین حکومت کرو
21:04جب تُمْ ان کے درمیان حاکم بنا دیے جاؤ
21:08اَن تَحْكُمُ بِالْعَدْلِ
21:10تم عدل کے ساتھ حکومت کرو
21:12توحید کے بعد
21:15دینہ اندلہ الاسلام
21:17اللہ کے نزدیک دین فقط اسلام ہے
21:19اور اسلام میں توحید کے بعد
21:22بنیادی اصول عدل ہے
21:23جو اسلامی ریاست کی بنیادی ذمہ داری ہے
21:27یہ عدل
21:28اگر فی الواقعہ
21:30قائم ہو جائے گا
21:31تو وہ مساوات ہو
21:33حسن معاشرت ہو
21:35وہ فراغی معیشت ہو
21:37وہ خود بخود قائم ہو جائیں گی
21:39اسی آیت کا پہلا اصول ہے
21:41کہ امانات ان کے احل تک پہنچا دیجئے
21:44تو جب ریاست امانت کو
21:47وہ خواہ علم ہو
21:48وہ خواہ آپ کی بھوک کی ضرورت ہو
21:51وہ خواہ آپ کے شیلٹر کی ضرورت ہو
21:53وہ کچھ بھی ہو
21:54جب ریاست امانات کو
21:57ان کے احل تک پہنچانا شروع کرے گی
21:59اور جب حاکم ریاست
22:01وہ خواہ گھر کا حاکم ہو
22:03یا مایکرو لیول پہ
22:05اسلامی حکومت کا
22:06یا کسی مملکت کا حاکم ہو
22:08جب وہ عدل کے ساتھ فیصلہ کرے گا نا جی
22:11تو پھر عدل یہ ہے
22:12کہ جو شیعہ جیسے ڈاپس صاحب نے فرمایا تھا
22:15کہ جو شیعہ جہاں مقام رکھتی ہے
22:18اسے وہاں رکھ دیجئے
22:20تو جب عدل ہوگا
22:21تو خود بخود
22:23اسلامی ریاست میں
22:24یعنی مسلم امہ میں
22:26اتحاد قائم ہو جائے گا
22:28کیونکہ آپ جس کا حق ہے
22:29اسے دینے لگ جائیں گے
22:30تو جس کا فرض ہے
22:32وہ خود ادا کر رہا ہوگا
22:33تو حق پہنچے گا نا
22:34تو خود بخود جو
22:35اسلامی ریاست ہے
22:37وہ اتحاد امت کا باعث بنے گی
22:40اور اسلامی ریاست کے
22:42حاکم کی پہلی ذمہ داری ہے
22:44کہ وہ عوام الناس کی
22:46بنیادی ضروریات پوری کرتے ہوئے
22:48امام زین العابدین
22:50علیہ السلام کا ایک
22:51طولانی حدیث ہے
22:52جس میں پچاس حقوق بیان کیے گئے ہیں
22:55رسادت الحقوق کے نام سے
22:57معروف ہے وہ
22:58پچاس حقوق ہیں
23:00حتیٰ کہ اس میں حق نمبر انچاس ہے
23:02کہ تمہارے ساتھ برائی کرنے والے کا کیا حق ہے
23:05کہ اسے درگزر کرو
23:07اور جیسے مولا کائنات نے فرمایا تھا
23:09کہ میرے قاتل کو اتنا ہی وار کرنا
23:11اگر درگزر نہ کر سکو
23:13تو اتنا ہی وار کرنا
23:15جتنا اس نے مجھ پر کیا ہے
23:16یہ ہے عدل کی خوبصورت ترین مثال
23:19عدل قائم کیجئے
23:21لوگوں کے حقوق ادا ہوں گے
23:22اور اسلامی ریاست میں
23:24اتحاد امت خود بخود قائم ہو جائے گا
23:26ناظرین کرام بہت اہم گفتگو ہے
23:30اتحاد امت میں ریاست کا کیا کردار ہے
23:33ایک وقفہ ہے پروگرام میں
23:35اور دوبارہ چلتے ہیں دربارہ رسالت میں
23:37اور اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات
23:40اقدس پر بالحانہ انداز میں
23:41درود کریم کا نظرانہ پیش کرتے ہیں
23:43وقفے کے بعد ناظرین کرام دوبارہ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں
23:46اے آر وائی کیو ٹی وی لاہور سٹوڈیوز ہے
23:48اور ہمارا پروگرام ہے اتحاد امت
23:51جنابی ڈاکٹر صاحب صدیقی صاحب
23:53میرا نکتہ نظر یہ تھا
23:55شاید میں اس کو کھول نہیں سکا
23:58دیکھیں
23:59جب
24:01ہر کسی کو
24:02کھانا نہیں ملے گا
24:05دو طبقے پیدا ہو جائیں گے
24:07اتحاد ٹوٹ جائے گا
24:09ایسے ہی ہے نا
24:11ایک غریب ہو جائے گا
24:12ایک امیر ہو جائے گا
24:13ایک وہ شخص ہوگا جس کا پیٹ بھرا ہوا ہے
24:16ایک وہ شخص ہوگا جس کا پیٹ نہیں بھرا ہوا
24:18اور وہ تشدد پر بھی امادہ ہوگا
24:20اس کے اخلاقیات بھی بگڑ جائیں گے
24:22ایک شخص وہ ہے
24:23اب بنیادی حقوق کی بات ہو رہی ہے
24:25کہ جس کے تن پر کپڑا ہے
24:27ایک کے اوپر کپڑا نہیں ہے
24:28تو تقسیم تو ہو گئی
24:30انسانیت بھی تقسیم ہو گئی
24:32اتحاد بھی تقسیم ہو گیا
24:33اور ایک وہ ہے جس کے پاس چھت ہے
24:36ایک کے پاس نہیں ہے
24:37تقسیم ہو گئی
24:38اور ایک کے پاس علم ہے
24:40روشنی ہے
24:41ہدایت کو سمجھنے کے لیے
24:43پانے کے لیے
24:44راستہ اختیار کرنے کے لیے
24:45ایک کے پاس نہیں ہے
24:46اور ایک بیمار ہے
24:48ایک تندرست و طبانہ ہے
24:49تقسیم تو یہاں ہو گئی
24:51اس تقسیم کو ختم کرنے کے لیے
24:54میں سمجھتا ہوں
24:54کہ سب سے پہلا کردار
24:56جو ریاست کا ہے
24:57وہ مساوات کے تحت
24:59سب کو یہ بنیادی حقوق
25:00فراہم کر دیے جائیں
25:02irrespectively
25:03اس کا مذہب کیا ہے
25:04اس کا خاندان کیا ہے
25:06اس کی ملت کیا ہے
25:07اس کی قوم کیا ہے
25:08اس کا عقیدہ کیا ہے
25:10کافر ہو
25:11اس کے بھی یہ حقوق ہیں
25:12اور مسلمان کے بھی یہ حقوق ہیں
25:14اور یہ اسلامی ریاست کی
25:15ذمہ داری ہے
25:16آپ endorsement اس کو دیتے ہیں
25:18اب اس کے بعد میں سمجھتا ہوں
25:20کہ جب وہ اس اہل ہو جائیں گے
25:22زمانے میں
25:23معاشرہ میں
25:23اپنا کردار ادا کرنے کے
25:25پھر وہ جتنی محنت کریں گے
25:27جتنی جدو جہد کریں گے
25:29اس کے بعد عدل کی
25:30application ان پہ ہوگی
25:32کہ جو جتنا کمائے گا
25:33جو جتنی جدو جہد کرے گا
25:35اس کا اتنا ہی حق ہے
25:37بھی
25:38اصل میں بات یہ ہے
25:41کہ
25:41یہاں
25:43جو اصل موضوع ہے نا
25:45ہم اس کی طرف آتے ہیں
25:47کہ
25:47ریاست کا کردار کیا ہونا چاہیے
25:50اتحاد امت کے
25:51اس زمن میں
25:53ہم جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
25:56کے عصوے مبارکہ کو دیکھتے ہیں
25:58تو
25:59آپ نے جب
26:00ریاست اسلامی کا آغاز کیا
26:02مدینہ منورہ
26:04آپ داخل ہوئے
26:05مدینہ
26:06یسرب میں
26:06اور جب آپ داخل ہوئے تو
26:09یسرب یسرب نہ رہا
26:10مدینہ النبی بن گیا
26:11صحیح
26:11ریاست اسلامی کا آغاز ہو گیا
26:14تو اس ریاست اسلامی میں
26:16آپ نے جو سب سے پہلی
26:18جو اقدام کیا
26:20وہ یہی
26:21اتحاد و اتفاق کی
26:22فضا پیدا کرنے کا کیا
26:24معاخات
26:25مہاجرین و انصار
26:27ہر ایک کو ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا
26:30اور یہ کہا کہ جیسے ایک بھائی کے دوسرے بھائی پر حقوق ہوتے ہیں
26:33وہ اس کی حفاظت کرتا ہے
26:35وہ اس کی حفاظت کرتا ہے
26:36اسی طرح یہ بات ہوگی
26:37ریاستی لیول کے اوپر آپ نے ایک میساق مدینہ
26:42جو دنیا کا پہلا دستور سمجھا جاتا ہے
26:46تحریری دستور
26:48میساق مدینہ کے شکل میں ہمارے سامنے آیا
26:51اور اس میساق مدینہ میں آپ نے یہ فرمایا
26:55کہ یہود مدینہ جو مدینے کے آس پاس آباد ہیں
26:59وہ مسلمانوں کی حفاظت کریں گے
27:02اور مسلمانوں کے دشمنوں سے لڑیں گے
27:05اور مسلمان یہودیوں کی حفاظت کریں گے
27:09اور یہودیوں کے دشمنوں سے لڑیں گے
27:11یہ میساق مدینہ ہوا
27:13اور اس میساق مدینہ کے ذریعے سے
27:16اب یعنی ان دونوں باتوں کا نتیجہ کیا نکلا
27:19جہاں سے ریاست اسلامی کا آغاز ہوا
27:21کہ اندرونی اتحاد اور اندرونی امن قائم ہو گیا
27:25اور بیرونی طور پر سرحدیں محفوظ ہو گئیں
27:29اور وہاں امن اور مامون ہو گئے
27:32لوگ محفوظ ہو گئے
27:34اور اس کے بعد پھر آپ نے
27:36مالیاتی نظام کی طرف توجہ دی
27:39اور مالیاتی نظام کا آغاز ہوا
27:41زکاة کے حوالے سے پہلا حکم دو ہجری میں آیا
27:45اور مالیاتی نظام کے مختلف احکام
27:48نو ہجری تک نازل ہوتے رہے
27:50اور نو ہجری میں جا کر
27:53اچھا اب زکاة کا جو نظام ہے
27:55وہ کہاں سے شروع ہوتا ہے
27:56اس کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں
27:59تُوخَذُ مِنْ اَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ الْا فُقَرَائِهِمْ
28:03ٹھیک ہے
28:03کہ جو معاشرے کے اغنیاں ہیں
28:08دولتمند صاحب سروت لوگ ہیں
28:10ان سے یہ زکاة لی جائے گی
28:12وَتُرَدُّ الْا فُقَرَائِهِمْ
28:14اور اسی معاشرے کے فقراء کو دی جائے گی
28:17یعنی یہ جو ایک تفاوت اور فرق ہے
28:20جس کا آپ ذکر فرماتے ہیں
28:21حقصہ میں ابھی آپ کی اجازت سے
28:22میں خطہ کلامی کی معافی بھی چاہتا ہوں
28:24میں وہیں کھڑا ہوں اپنے سوال پہ
28:26جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ
28:29رات کو گشت لگایا کرتے تھے
28:30اور ایک رات ایک دروازے سے
28:32ایک گھر سے بچوں کے رونے کی آواز آئی
28:35تو آپ نے نوک کیا
28:37اور ایک ماں
28:39بڑی ماں باہر نکلی
28:40تو اس نے کہا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا
28:43یہ بچے کیوں رو رہے ہیں
28:45تو اس ماں نے کہا تھا
28:47آپ جائیں
28:48میں قیامت کے دن عمر سے پوچھوں گی
28:50وہ امیر المومنین ہے
28:52اس کی ریاست میں میرے بچے بھوک سے بلک رہے ہیں
28:55پھر آپ واپس گئے
28:57میں مختصر کر رہا ہوں
28:58لمبی بات ہے
28:59بیت المال سے کچھ کھانے پکانے کے لیے لیا
29:01اور پھر خود پکا کے بچوں کو کھلایا
29:04اور جب
29:06بیت المال سے کھانا لے کر آ رہے تھے
29:08تو خادم نے کہا امیر المومنین میں اٹھا لوں
29:10کہا نہیں
29:11یہ میرا حق ہے
29:13اور میرا ہی پہنچانا فرض ہے
29:14جب پہنچا دیا
29:16اور فرض ادا ہو گیا
29:18تو ماں نے سر پہ ہاتھ رہا کے کہا
29:19بیٹا امیر المومنین تو تمہیں ہونا چاہیے
29:21بلکل ایسا ہے
29:24تم تو مسافر تھے
29:26تمہیں ہونا چاہیے
29:27پھر بتایا
29:27کہ امہ جان میں ہی ہوں
29:29مجھ سے تاخیر ہو گئی
29:30تو میں اس سے یہ کنسیو کر رہا ہوں
29:32کہ یہ جو حقوق کی فراہمی ہے
29:35یہ امیر المومنین کی
29:36یا ریاست کی فراہمی ہے
29:38اور یہ بنیادی حقوق
29:39یہ بنیادی حقوق ہے
29:40بلا شبہ
29:41وہی میں ارسل کر رہا ہوں
29:42کہ اس میں
29:43یعنی پہلا جو قدم ہے نا
29:45وہ زکاة کا نظام ہے
29:46اور اس زکاة کے نظام میں
29:49یعنی یہ نہیں کہے
29:50فقراء دردر جائیں
29:52اور زکاة لیں
29:54بلکہ یہ پہلی ذمہ داری ہے
29:57ریاست کی
29:57کہ وہ ان اغنیاں سے
30:00وہ زکاة وصول کرے
30:01اور پھر خود فقراء تک پہنچائے
30:04وہ ہاتھ بھی نہ پھیلائیں
30:07وہ فقیر اور مسکین
30:09دیکھیں نا مسکین جو ہے
30:11وہ کیا ہے
30:12انما صدقات الفقراء والمساکین
30:14مسکین سکون سے نکلائیں
30:17وہ شخص ہے
30:19جو اپنی حیثیت کے اوپر
30:21پرسکون ہے
30:22وہ ہاتھ نہیں پھیلارا
30:24لوگوں سے جا کے
30:25اپنے کہانیاں نہیں بیان کر رہا
30:27وہ ان کے سامنے
30:28راجتیں نہیں
30:29وہ مسکین ہے
30:30اس کو دھونڈو
30:33وہ کہاں ہے
30:34وہ کہاں ہے
30:34میری طرف کسی کی دوجہ ہے
30:36مجھے کوئی دیکھنے والا ہے
30:37اچھا یہ پوری عبادات کا نظام
30:39جو ہے نا
30:40ہمارا ایسی معاشرت
30:41میں آپ دیکھیں نا
30:43ایک ایک چیز کو دیکھیں
30:44کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
30:46کہ
30:46روزے دار کو افتار کراؤ
30:49جی
30:49ہے نا
30:50صحابہ نے حج کہ
30:51یا رسول اللہ
30:52ہم میں سے تو کسی کے پاس
30:53اتنا
30:53ہے نہیں
30:54آپ نے کہا
30:55آدھی خجور سے بھی کرا دو گئے
30:57یعنی
30:57ایسا آدمی
30:58ڈھونڈو
30:58جس نے روزہ تو رکھ لیا ہے
31:01لیکن
31:01اس کو روزہ افتار کرنے کے لیے
31:03آدھی خجور بھی اس کے پاس نہیں ہے
31:05میں آپ کی جانت سے
31:05شریکہ گفتگو کرنا چاہتا ہوں
31:07وقت بہت ہڑا ہے
31:07جی
31:08اکمل صاحب
31:09ہم حقوق کی بات کر رہے ہیں
31:11ایک ریاست
31:12وہ ہوا کرتی ہے
31:14جس کو ہم
31:15آئیڈیل ریاست کہہ سکتے ہیں
31:17جس میں
31:17نہ سٹیٹ کرائمز ہوتے ہیں
31:19نہ سٹریٹ کرائمز ہوتے ہیں
31:20یہ کیفیت آتی کب ہے
31:22اور
31:25امت اور ریایہ بڑی متحد ہوتی ہے
31:28نہ سٹیٹ کرائم
31:29نہ سٹریٹ کرائم
31:30بڑی آپ نے خوبصورت بات کی
31:32اصل میں جو
31:33سٹیٹ کرائمز اور سٹریٹ کرائمز
31:35یہ بنیادی طور پہ
31:38اس وقت ہی ختم ہوتے ہیں
31:39جب دونوں سطح کے اوپر
31:41حقوق مل رہے ہوں
31:42کام ہو رہا ہو
31:43جی ہاں
31:43ایک تو یہ ہے کہ
31:44جو آپ کے حکمران ہوں
31:46وہ عادل ہوں
31:47وہ متقی ہوں
31:48اور دوسرا یہ ہے
31:49کہ جو ریایہ ہیں
31:51ان کے اندر بھی
31:52اتنا اقل و شعور ہو
31:53کہ ان کو
31:54اگر اپنے جو حکمران ہیں
31:55ان کو چننے کا اختیار دیا جائے
31:57تو وہ درست حکمرانوں کا انتخاب کریں
31:59جو کہ آگے بڑھ کر
32:00جو ہے نا
32:01امت مسلمہ کی ترقی کا باعث بنیں
32:03تو یہ ہمیں نظر بھی آتا ہے
32:05کہ جب بھی
32:06ہمارے جو حکمران تھے
32:08جس طرح سے ہمارے سامنے
32:10حضرت عمر کی مثال ہے
32:11کہ حضرت عمر کے دور کے اندر
32:13ایک زکاة کا
32:14اتنا زبردست قسم کا
32:15سسٹم بنایا گیا
32:16کہ جو زکاة ہے
32:18وہ ہر
32:19لینے والے کے
32:20اس کے گھر پہنچائی گئی
32:21اور بغیر اس کے طلب کی
32:23اس طرح کا نظام بنایا گیا
32:24ایک سکروٹنی قائم کی گئی
32:25تو اس کے نتیجے کے اندر
32:27ہمیں نظر یہ آتا ہے
32:28کہ زکاة دینے والے
32:29بہت سارے لوگ
32:30تھے خواہش تھی ان کی
32:31کہ ہم اپنی زکاة
32:32لینے والا کوئی نہیں
32:33لینے والا کوئی نہیں تھا
32:34اس میں
32:34آگا صاحب
32:35اسی موضوع پہ
32:36کیا گفت
32:36جی سر جیسے
32:38میں نے گزارش کی
32:40کہ وہ کیفیت
32:41کب آتی ہے
32:41بلکہ
32:42نہ سٹیٹ کرائم ہو
32:43نہ سٹیٹ کرائم
32:43بلکہ
32:44دیکھیں
32:45ہم نے یہ
32:47اس بنیادی نکتے پہ
32:49ہم سب متفق ہیں
32:50کہ ریاست
32:52عدل پہ قائم ہونی چاہیے
32:54عدل نہیں ہوگا
32:56تو عدل کی زید ہے
32:57ظلم
32:57جی بلکہ
32:58اور جب بھی
32:59ظلم قائم ہوگا
33:00تو سٹیٹ کرائم بھی ہوں گے
33:02اور سٹیٹ کرائم بھی ہوں گے
33:03آپ عدل قائم کر دیجئے
33:06جس کا جو حق ہے
33:08اسے
33:09باہم
33:10اس کی دہلیز تک پہنچا دیجئے
33:11پھر نہ
33:12سٹیٹ کرائم بچے گا
33:14نہ سٹیٹ کرائم بچے گا
33:16جو
33:17اسلامی سلطنت کا
33:19حاکم ہے
33:19جو اسلامی ریاست کا
33:22حاکم ہے
33:22وہ
33:24لازمی نہیں ہے
33:25کہ تحجد گزارو
33:26لیکن
33:28دو
33:28دو سلسلے ہیں
33:30کہ تحجد پڑی
33:31یا نہیں پڑی
33:32دو سلسلے
33:32ایک الہی عمر ہے
33:34جس کے لیے
33:34اول العمر موجود ہے
33:35اور ایک وہ ہے
33:37جس میں شرائی نظام
33:38یا جمہوریت کے تحت
33:39آپ اپنا حاکم
33:40منتخب کرتے ہیں
33:42تو حاکم
33:43ہمی میں سے آئے گا
33:44اور ہم جیسا ہی ہوگا
33:45اس کے لیے
33:46لازمی نہیں ہے
33:47کہ وہ تحجد گزارو
33:48مگر اس کے لیے
33:49لازم ہے
33:50کہ وہ عادل ہو
33:51جس کا
33:52جو حق بنتا ہو
33:54اسے
33:55اس حق کو
33:56پہنچانے کے لیے
33:57وہ ذمہ دار بھی ہو
33:59وہ کفیل بھی
34:00جی بلکل کفیل بھی ہو
34:02وہ جب سوال ہوگا
34:04تو وہ
34:05سوال ہوگا
34:06عدل کے بارے میں
34:08کیونکہ میں نے
34:08جیسے
34:09اصول پیش کیا
34:10قرآن سے
34:11سورہ نساء سے
34:12کہ
34:13تم عدل کے ساتھ
34:14حکومت کرو
34:15تم فیصلہ
34:16عدل کے ساتھ کرو
34:17تو یہ عدل
34:18واحد دلیل ہے
34:19توحید کے بعد
34:21یعنی اگر
34:22نبوت بھی
34:22عطا ہوئی ہے
34:23تو وہ عدل سے
34:24عطا ہوئی ہے
34:25تو اگر آپ
34:26عدل کریں گے
34:27تو لازمی ہے
34:28تعلیم جس کا حق ہے
34:29اس تک پہنچے گی
34:30معیشت جس نے
34:32جتنی صحیح کی ہے
34:33اس تک پہنچے گی
34:34معاشرت حسن
34:35معاشرت وہاں
34:36قائم ہوگا
34:37جتنا آپ
34:38اصل میں
34:39مسئلہ یہ ہے
34:40کہ ہم سب چاہتے ہیں
34:42کہ ہمارے ساتھ
34:43عدل ہو
34:44عدل ہوتا کیوں نہیں ہے
34:45کیونکہ
34:46کوئی بھی نہیں چاہتا
34:47کہ میں عدل کروں
34:48منحیس الفرد
34:51اگر ہم
34:52خود جہاں جس پوزیشن میں ہیں
34:54دوسرے کے ساتھ
34:55مدد مقابل کے ساتھ
34:57عدل کرنا شروع کر دیں
34:58اس معاشرے سے
35:00ظلم بھی ختم ہو جائے گا
35:01کرائم بھی ختم ہو جائے گا
35:03حقوق پہنچنے لگیں گے
35:04تو اتحاد امت
35:05قائم ہو جائے گا
35:06بہت شکریہ
35:07ناظر صاحب
35:08آمد کا بہت شکریہ
35:09حتمل صاحب بہت شکریہ
35:11آگر صاحب بہت شکریہ
35:12ناظرین کرام بات ہوئی
35:14کہ ریاست میں
35:15ریایہ میں
35:16عدل
35:17اس وقت قائم ہوگا
35:18جب سب سے پہلے
35:20بنیادی حقوق کے زمن میں
35:21مسابات قائم ہوگی
35:23اور مسابات
35:24بنیادی حقوق
35:25جب سب قوم مل جائیں گے
35:27تو پھر
35:27زندگی کی دور میں
35:29سب اس قابل ہوں گے
35:30کہ
35:31عزت کی زندگی
35:32گزارنے کے لئے
35:33جد و جہد کریں گے
35:34جب جد و جہد کرنے کے
35:35قابل ہو جائیں گے
35:36پھر عدل کی
35:37اپلیکشن ہوگی
35:37اور اس کے بعد
35:38ناظرین کرام
35:39ایک اور اپلیکشن ہے
35:40اور وہ ہے
35:41احسان کی
35:42جب عدلی قائم نہیں ہوگا
35:44تو احسان نہیں
35:45قائم ہو سکتا
35:46پہلے مسابات
35:48بنیادی حقوق کے معاملے میں
35:49اور اس کے بعد
35:50طرز زندگی میں
35:51عدل
35:52اور پھر احسان
35:53احسان کیا ہے
35:54سعید بن عامر
35:56رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو
35:57حضرت عمر بن خطاب
35:58رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے
35:59حمس کا گورنر بنایا
36:00تو پیغام بھیجا
36:02کہ سعید
36:02میں کھولی کے چہری
36:03لگانا چاہتا ہوں
36:04تمہارے صوبے میں
36:05اور تم میرے پاس
36:06بیٹھو گے
36:07بطور ایک گورنر
36:07اور میں
36:08آپ کی ریایہ سے
36:09پوچھوں گا
36:10کہ میرا گورنر
36:11کیسا ہے
36:11عدل قائم کرتا ہے
36:13یا نہیں کرتا
36:14احسان کرتا ہے
36:15یا نہیں کرتا
36:16تو ایسے کرنا
36:17ایسے کرنا
36:18کہ ایک مساکین کی
36:20فیرس بنا کر رکھنا
36:21ناظرین کرام
36:22جب کھولی کے چہری
36:23لگائی گئی
36:24حضرت عمر کو
36:24وہ سیکرٹ
36:25بند انویلپ میں
36:33اللہ تعالی
36:34انہو کا تھا
36:35آپ نے پوچھا
36:36سعید
36:36گورنر کی ترہانی لیتے
36:38کہ امیر المومنین
36:39لیتا ہوں
36:40میں ساری تنخواہ
36:41غریبوں میں
36:42تقسیم کر دیتا ہوں
36:43اور خود اس پیٹ میں
36:44ایک روٹی کی گنجائش ہے
36:45وہ اللہ رب العزت
36:46مجھے دے دیتا ہے
36:47ناظرین کرام
36:48جب حاکم
36:49ریاست کے سربراہ
36:51اس طرز کے ہوں گے
36:52تو ریایہ
36:52اپنے آپ خوشحال ہوگی
36:54نہ وہاں
36:55سٹریٹ کرائم ہوں گے
36:56نہ وہاں
36:56سٹریٹ کرائمز ہوں گے
36:57ناظرین کرام
36:58اسی کے ساتھ
36:59ہمارا آج کا پروگرام
37:00اتحاد امت
37:00اے آر وائی ٹیو ٹیو
37:02لاہور سٹوڈیوز سے
37:02اپنے اختدام کو پہنچتا ہے
37:04اپنے میزبان
37:04ڈاکٹر محمد
37:05طاہر مصطفیٰ کو
37:06اجازت دیجئے
37:07اپنے بہت خیال لکھئے
37:08اللہ حافظ
37:25اپنے بہت خیال لکھئے

Recommended