- 2 days ago
Category
✨
PeopleTranscript
00:00سردی اس رات اروج پر تھی
00:01میں اپنے کمرے میں کے لی لیٹی ہوئی
00:03آج میرا کمبل بھی مجھے کوئی گرمائش نہیں دے رہا تھا
00:06سردی سے میرا جسم کام پر رہا تھا
00:08مجھے اس ٹائم گرمائش کی سخت ضرورت تھی
00:10لیکن مسلسل برف باری ہونے کے وجہ سے
00:12میرے کمرے میں ایسا کوئی انتظام نہیں تھا
00:13جو میرے جسم کو گرمائش دے
00:15تھوڑی دیر بعد مجھے اپنا جسم برف کی مانند
00:17محسوس ہونے لگا
00:18ایسا لگ رہا تھا کہ میرے جسم میں جان ہی نکل گئی
00:21تھوڑی دیر کروٹے بدلتے بدلتے نین کا غلبہ
00:23مجھے پتاری ہو گیا
00:24لیکن تھوڑی دیر بعد مجھے ایسا محسوس ہوا
00:26کہ میرے کمبل میں کوئی اور بھی موجود ہے
00:27اس کی گرم گرم سانسے میں اپنی گردن کے قریب
00:30محسوس کر رہی تھی
00:31اور جب میں نے آنکھ کھولی ایک وجود میرے اوپر ہی لٹا ہوا تھا
00:34اور اس نے ساری اراد میرے جسم کو
00:36آج میں بات مل گئی تو میری حالت روٹین سے ہٹ کر تھی
00:39پچھلے کچھ دنوں سے مسلسل مجھے کہہ آ رہی تھی
00:41مجھے اپنے جسم میں واضح تبدیلی محسوس ہونے لگی تھی
00:44تھا کھار کر میں نے امی سے کہا
00:46کہ میری طبیعت کچھ زیادہ ہی خراب ہو رہی ہے
00:48وہ فوراں مجھے ڈاکٹر کا پاس لے گئی
00:49ڈاکٹر نے میری قفیت سن کر جان ٹیسٹ لکھ دیئے
00:52لیکن جب رپورٹ میری ہاتھ میں آئی
00:54میرا سر بری طرح سے چکر آ گیا
00:55مجھے لگ رہا ڈاکٹر کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے
00:57یا یہ رپورٹ غلط ہے
00:59یہی حالت میری والدہ کی بھی تھی
01:00وہ حقہ بقہ مجھے دیکھی جا رہی تھی
01:02اور مجھے لگ رہا تھا جیسے میں کچھ نہ کر کے بھی
01:04ان کے سامنے مجرم ہو چکی ہوں
01:06میرا نام ہو رہی ہے
01:08میں اپنے والدین کی کلوتی ہوں
01:09میرے باپ کو بہت شوق تھا کہ میں پڑھ لے کر بہت بڑی افیسر بنوں
01:12لیکن ہم میڈل کلاس فیملی سے تلق رکھتے
01:15میرے باپ نے ایک دن میند کر کے پائی پائی جوڑ کر مجھے پڑھایا تھا
01:19اور میں نے بھی ان کا سر فخر سے بلاند کیا
01:21میں نے ہر کلاس میں بہت اچھے نمبر لے کر
01:23اپنے والد کو یہ حوصلہ دیا تھا
01:24کہ ان کی بیٹی کبھی بھی ان کا سر نہیں جھکانے دے گی
01:27لیکن میرا روج دیکھنے سے پہلے ہی میرے والد کے انتقال ہو گیا
01:30اور ہم ماں بیٹی اس دنیا میں تنہا ہو گئی
01:32لیکن آج جب میں نے ریپورٹس دیکھی
01:34تو میں نے یہ سوچا تھا
01:35کہ شاید میرے باپ اس دنیا میں نہ ہونا ہی بہتر ہے
01:38کیونکہ شاید وہ یہ زلط اور بسوائی برداشت نہ کر پاتے
01:41جو کالک میں نے ان کے موں پر ملی تھی
01:43کوئی بھی شریح باپ یہ برداشت نہیں کر پاتا
01:45میں تو پھر اپنے باپ کی یہ بہت لادلی بیٹی تھی
01:48ان کو بہت مان تھا مجھ پر
01:50میں با مشکل ضبط باندے گھر پہنچی تھی
01:52میری والدہ گھراتے ہی رونے لگے
01:53کہنے لگی کیا کیا تو انہیں ہو دیا
01:55کس کا گناہ تم اپنے وجود میں پا رہی ہو
01:57میں کیا جواب دیتی مجھے خود اس کا علم نہیں تھا
02:00میں کس پر شاک کرتی
02:01میرے گھر میں تو میری ماں کے لعبہ کوئی رہتا بھی نہیں تھا
02:04میں نے دونوں آتوں سے اپنا چکراتا سر پکڑا
02:06ڈاکٹر کے مطابق میں پچھلے دو ماں سے امید سے تھی
02:08میری تین چار قسم کی رپورٹس کروائے گئی تھی
02:11اور سب رپورٹس میں یہی آیا تھا
02:12میں اسے جھوٹا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی
02:15لیکن سوچنے والے بار یہ تھی
02:16میرے ساتھ یہ سب کیا کس نے
02:18جو مجھے خبر تک نہ ہوئی
02:19میری ماں مجھے کوئی سے جا رہی تھی
02:21میں رونے لگی
02:21میں نے کہا ہاں امی مجھ سے قسم لے لئی
02:23لیکن میں نے واقعی کوئی گناہ نہیں کیا
02:25میں جانتی تک نہیں ہوں کہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے
02:27امی کہنے لگی تم جوٹ بور رہی ہو
02:29مجھے بیب کو بنانے کی کوشش نہ کرو
02:31میں نے کہی قسمیں کھا کر
02:33اپنی ماں کو یقین دلایا
02:34تو وہ کچھ چپ ہوئیں
02:35اگلے ہی روز وہ مجھے ایک دوسری ڈاکٹر کے پاس لے گئے
02:37جو ان کی جان بچان کی تھی
02:38اور انہیں اعتماد میں لے کر کہنے لگی
02:40کہ وہ میرا آبارشن کر دی
02:41لیکن وہ کہنے لگی آپ نے دیر کر دی ہے
02:44دو ماہ ہو چکے ہیں
02:45اس چیز کو اب کوئی حل نہیں اس کا
02:47پر میری شادی کے دن قریب آتے جا رہے تھے
02:49میرا شور تو یہ راز جان کر
02:51مجھے بدنام کر کے چھوڑ دیتا
02:52میں نے امی کو شادی کرنے سے انکار کر دیا
02:54اس سے پہلے کہ میری مزید بدنامی ہوتی بھی
02:56اترتا میں شادی سے انکار کر دیتی
02:58میری والدہ کہنے لگی
02:59کہ ہم انکار کا کیا جواز پیش کریں گے
03:01وہ لوگ وجہ پوچھیں گے
03:02اور ہمارے پاس ایسی کوئی بھی وجہ موجود نہیں ہے
03:05ہم لوگوں کے سوالوں کا کیا جواب دیں گے
03:07مسئلہ کا ایسا کیا حل نکالا جائے
03:09میرے ساتھ جس نے بھی ظلم کیا تھا
03:11فیلحال وہ میری نظروں سے پوشیدہ تھا
03:13میں اپنی جگہ رسوائی نہیں چاہتی تھی
03:14اس لئے میرا رات کو ہی اپنا سمان باندھا
03:16اور دوسرے سیر سیال کوٹ چلی گئی
03:18وہاں نہ تو کوئی مجھے جانتا تھا
03:20اور نہ ہی میری والدہ کو
03:21میں پڑی لکھی بھی تھی
03:22اور پہلے بھی جاب کر دی تھی
03:23جس سے میری شادی ہونے والی تھی
03:24وہ میرا ایک کولیگ تھا
03:26اس نے مجھے آفاس میں ہی پرپوز کیا تھا
03:28میرے گھر میری والدہ کی علاوہ
03:29اور کوئی بھی نہ تھا
03:30جب میں نے سفیان کے بارے میں
03:31اپنی والدہ سے ذکر کیا
03:32تو انہی بھی اس رشتے کو کوئی اتراز نہ تھا
03:35اسی طرح میرا رشتہ سفیان سے تیہ ہو گیا
03:37سفیان اچھا اور شریف انسان تھا
03:39کیونکہ اس نے مجھ سے محبت کے
03:40کئی دعوے کیے کرنے کی بجائے
03:42سیدھا سیدھا رشتہ بھیجا تھا
03:43آپ تک صاحب کچھ ٹھیک چاہ رہا تھا
03:45لیکن یہ سوچ کر میں پاگل ہونے لگی
03:47کہ ایسا بھی میرے ساتھ کیا ہوا
03:48کس شخص نے میرے ساتھ اتنی بڑی زیادتی کیا
03:50اور مجھے خبر تک نہ ہوئی
03:52یہ میری زندگی کا عجیب و غری واقعہ تھا
03:53جس نے میری راتوں کی نیند برباد کر کے رکھ دی تھی
03:56میں اپنی زندگی کے گمشدہ
03:58اور ہر گزرے لمحے پر غور کرتی
04:00لیکن میری زندگی میں کچھ ایسا بھی نہ تھا
04:02جس سے میں کسی پر شک کر سکتی
04:04خیر میں اور میری والدہ راتوں رات گھر سے نکلے تھے
04:06اس لیے دوسرے ہی دن میرے فون پر
04:08صفیان کی بہت سی کالز آئیں
04:09شاید وہ میری گھر سے غائب ہونے کی وجہ پوچھنا چاہتا تھا
04:12لیکن میں اسے اس بارے میں کیا بتاتی
04:14جس کے بارے میں مجھے خود بھی لمنا تھا
04:16میں جانتی تھی وہ مجھے کبھی بھی اس طرح کے
04:18قبول نہیں کرے گا
04:19ایک بار باتوں باتوں میں اس نے مجھ سے کہا تھا
04:21انایا میں سب کچھ برداشت کر سکتا ہوں
04:24لیکن بے وفائی ہرگز نہیں
04:25میں بے وفائی ہرگز نہ تھی
04:27لیکن نہ جانے کیسے بدکار ہو چکی تھی
04:29میری والدہ بھی اس وجہ سے بیمار رہنے لگی تھی
04:31یہاں میں نے یہی کہا تھا
04:33کہ میں شاتی شدہ ہوں
04:33اور میرا شوڑ برانویں ملک رہتا ہے
04:35میرے پاس اس کے لیوہ اور کوئی چارہ نہ تھا
04:37کہ میں جھوٹ بولتی
04:38یہ بہت عجیب تھا جو میں نہیں جانتی تھی
04:40کہ میں کس کا گناہ پر وجود میں پار رہی ہوں
04:41دین بعد دین میری طبیعت عجیب ہونے لگی
04:44مجھے خود سے گناہ آنے لگتی
04:45میں روتی رہتی تھی
04:46کہ گھنٹے جائے نماز پر بیٹھ کر
04:48رب کے حضور سجدہ ریز ہو کر یہی کہتی
04:50کہ یا اللہ میں نے ایسا کیا گناہ کیا ہے
04:52جس کی سزا مجھے یوں مل رہی ہے
04:53یہ کیسی ازمائش ہے
04:55خیر جیسے جیسے وقت گزرتا رہا
04:57پھر وہ وقت آ گیا
04:58کہ میں ہسپیٹل میں ایڈمنٹ ہو گئی
04:59میں نہیں جانتی تھی
05:00کہ میرے بچے کا باپ کون ہے
05:02میں کس کے اولاد کو پالنے پر مجبور ہوں
05:04جسے میں جنم دینے والی تھی
05:05نہ تو میری محبت کی کوئی نشانی تھی
05:07نہ ہی میرے ساتھ کی گئی محبت میں
05:09توکھے بازی
05:09وہ ایک ناجائز اولاد تھی
05:11اور اس کے عذیت میں ہی جان سکتی تھی
05:13کہ میں یہ سب کیسے برداشت کر سکتی تھی
05:15میں یہ سوچ رہی تھی
05:16کہ اس بچے کو پیدا ہوتے ہی
05:17یتیم خانے کے حوالے کر دوں گی
05:18لیکن جیسے ہی میں نے اس بچے کو
05:20جنم دیا اسے دیکھا
05:21تو میرے ہوش ہی اڑ گیا تھے
05:22اس کے شکل تو میرے ہی
05:24یہ ان دنوں کی بات ہے
05:25جب میں اپنے آفیس کے کام کے سنسلے میں
05:27آفیس کی ٹیم کے ساتھ مری گئی تھی
05:29میک آر کی ٹیکچر تھی
05:31نقشے بناتی تھی
05:33میرا یہی کام تھا
05:34مری میں بھی میں اسی سنسلے میں گئی تھی
05:36وہاں پر ایک ہوتل کا نقشہ بنانا تھا
05:38اور اس کی تعمیر بھی کروانی تھی
05:40اس دین میں شامل چاند لوگ اور بھی تھے
05:42ہم سب کے کام کی نوئیت ایک جیسی ہی تھی
05:44ہماری پوری ٹیم کے لیے
05:46ہمارے بوس نے ایک ہوتل کے چاند کمروں کو
05:48بک کروا رکھا تھا
05:49ان دنوں ہوتل کے کمروں کی قیمتوں میں
05:51تین گناہ اضافہ ہو گیا تھا
05:52ان دنوں ہم بھی اپنے ہوتل کے کمروں میں
05:53قید ہو کر رہا گیا تھے
05:54سردیک شدت اتنی تھی
05:56کہ ہاتھ پاؤں کام نہیں کر رہے تھے
05:57مجھے یاد آنے لگا
05:59کہ انہی دنوں ہوتل پر گاہ کو کا رش بہت بڑھ گیا
06:01لوگ ہوتل کا کرایا لاکھوں میں دینے کو بھی تیار تھے
06:04بہت سے لوگوں نے انسانی حمددی کی تحت
06:05اپنے کمرے میں ہی لوگوں کو رکھنا شروع کر دیا تھا
06:08لیکن میں نہیں جانتی تھی
06:09کہ میرے ساتھ ایسا گناہ نہ کھیل بھی وہاں کھیلا جا سکتا ہے
06:12ایک رات میرے کمرے کا دروازہ بڑی زور سے بجا
06:14میں صدی کے مارے ایک ڈبر زائی میں کام رہی تھی
06:17بہت مشکل نہیں مجھے نیند آئی تھی
06:18کہ دروازہ کے دستک انہیں غارت کر دی تھی
06:20میں بہت مشکل نہیں اٹھ کر کمرے سے باہر آئی
06:22تو اسی ہوتل کے کم لازم تھا
06:24مجھ سے کہنے لگا ایک فیملی
06:25اس پر بڑی مشکل سے اس ہوتل تک پہنچی ہے
06:27اور ان کی بچی بھی بہت بیمار ہے
06:29ہوتل کا کوئی کمرہ بھی خالی نہیں ہے
06:31اگر آپ ایک رات کے لیے انہیں اس کمرے میں ٹھہر آئیں
06:33تو یہ آپ کا انباب بیٹی پر احسان ہوگا
06:35میں کچھ دیر تو یہ سوچتی نہیں
06:36کہ میں کیا کروں اور کیا نہیں
06:38لیکن میں نے انسانی ہمدردی کی طرح اجازت دے دی
06:41کچھ ہی دیر میں ایک تیس سالہ نوجوان
06:43ایک بچے کو گودھ ملی کے میرے سامنے کھڑا تھا
06:45وہ شخص اس وقت بہت پریشان تھا
06:47اس نے کمرے میں آتی ہے
06:48اپنی بیٹی کو فوراں سے بیڑ پر لٹا کر
06:49اس پر جائی اڑا دی
06:50وہ بچی بری طرح سے کام پر رہی تھی
06:52وہ شخص خود بھی جیکٹ پہنے ہوئے تھا
06:54مجھے مشکور نظروں سے دیکھنے لگا
06:56کہنے لگا میں آپ کا شکریہ کنے الفاظ میں دا کروں
06:58اگر آپ مجھ پر یہ آسان نہ کرتی
07:00تو میری بچی کو نہ جانے صدیق مارے کیا ہو جاتا
07:02میں نے کہاں کوئی بات نہیں
07:04وہ کہنے لگا بس میری بیٹی کا کچھ خیار رکھ لو
07:06وہ میرے کمرے سے بار چلا گیا
07:08میں آ کر اپنے بیڑ پر لیٹ گئی
07:10وہ بچی نیم غنودے میں بوری طرح سے کام پر رہی تھی
07:12میں اس کے برابر میں لیٹ گئی
07:13اس ماسومسی بچی کو اپنے گوش میں پر لیا
07:15کچھ دیر میں اس بچی کا لرزہ ختم ہو گیا تھا
07:18اور آب وہ بچی گہری نیت سو چکی تھی
07:20رات بر بر باری ہوتی رہی تھی
07:22اور صبح بھی یہی سلسلہ جاری رہا تھا
07:24صدیق شدت مزید بڑھ چکی تھی
07:25صبح وہ بچی جب جا گی تو مجھے اپنے پاس دیکھ کر گبرانے لگی
07:28مجھ سے کہنے لگی سے اس کے بابا کے پاس جانا ہے
07:31میں تو یہ نہیں جانتی تھی
07:32کہ اس کا باب کہاں تھا
07:33میرے پاس تھی شخص کا نمبر تک نہیں تھا
07:35میں اسے نے بہت سمجھایا کہ اس کے والد آ جائیں گے
07:37لیکن وہ رونے لگی تھی
07:38میں نے کمرے سے باہر نکل کر دائیں بائیں دیکھا
07:40کہ شاید مجھے اس کا باب کہیں نظر آ جائے
07:42لیکن حال بالکل خالی تھا
07:44میں نے بڑی مشکل مشکل سے اس بچی کو چپ کروایا تھا
07:46پھر ایک ملازم سے کہہ کر ناشتہ منگوایا
07:48لیکن اس کا باب واپس نہیں آیا تھا
07:50صبح سے دوپیر ہو چکی تھی
07:51لیکن اس بچی کا باپ کا کچھ پتہ نہیں تھا
07:54میں نے اس ہوتل کے میننجر سے جا کر پوچھا
07:56تو وہ کہنے لگے
07:56کہ رات پر تو وہ ہوتل کی لابی میں رکھے
07:58صوفے پر ہی سو رہا تھا
07:59لیکن صبح کہاں گیا
08:00انہی بھی اس بات کا علم نہیں تھا
08:02میں پریشان سی ہو گئی تھی
08:03کہ اس بچی کو کیسے پہل ہوں
08:04کیا کروں وہ روئے جا رہی تھی
08:06وہ مشکل ہی
08:07میں نے اسے دوپیر کا کھانا کھلایا
08:09پھر اس سے اس کی فیملی کے بارے میں پوچھنے لگی
08:11وہ کہنے لگی
08:12اس کی والدہ کا اس کے بچپن میں ہی انتقال ہو چکا تھا
08:14وہ اپنے والد کے ساتھ سیال کوٹ میں رہتی ہے
08:16میں کئی بار ہوتل کے سٹاف سے
08:17اس لڑکی کے والد کے بارے میں پوچھ چکی تھی
08:19لیکن وہ بھی کچھ نہیں جانتے تھے
08:21شام کے وقت وہ شخص واپس لوٹا تھا
08:23میرا غصے اور پریشانی کے مارے برا حال تھا
08:25بچی اپنے والد کو دیکھ کر اس کے ساتھ جالے گی
08:27اور میں اس شخص پر برس پڑے
08:28وہ کہنے لگا کہ تفان میں پن سے لوگوں کو نکالنے ہی گیا تھا
08:32آج رات بھی ایسے ہی تفان کی پیش گوئی کی گئی ہے
08:34کل شام تک شاید کوئی حال نکل آئے
08:36جیسے یہ راستے کوئی صاف ہوئے
08:37میں فوراں سے واپس چلا جاؤں گا
08:39آپ نے میری وجہ سے بہت زحمت اٹھائی ہے
08:40وہ وضع دینے لگا
08:41میں نے کہا کوئی بات نہیں
08:43آپ نے جو بھی کیا ہے
08:44لوگوں کو بچانے کیلئے ہی کیا ہے
08:45اور ایسے مشکل وقت میں
08:46ہم ایک دوسرے کا ساتھ نہیں دیں گے
08:48تو کیا فائدہ ایسی انسانیت کا
08:49میری بات پر وہ قدر پر سکون ہوا تھا
08:51رات تک وہ اسی کمرے میں رہا
08:53مجھ سے میرے بارے میں پوچھتا رہا
08:54اور اپنے بارے میں بتاتا رہا
08:56وقت بھی تو گزارنا تھا
08:57کہنے لگا اس کی لب مہرج تھی
08:58اور بیٹی کے پیدائش کے بعد
08:59اس کی بیوی بیمار رہنے لگی تھی
09:01اس کی بیٹی دو سال کی تھی
09:02جب اس کی بیوی انتقال کر گئے
09:04لیکن اس کے بعد وہ کسی اور
09:05کو اپنی زندگی میں شامل نہیں کر سکا
09:06کیونکہ اسے یہ ڈاڑ لاحق تھا
09:08کہ کوئی عورت اس کی بیٹی کے ساتھ
09:09ستیلی ماؤں جیسا سلوک نہ کرے
09:11رات کو وہ شخص کمرے سے بار چلا گیا
09:13فون کسی گندل تک بند تھے
09:14میں نے اپنے فون کو ایک نظر دیکھا
09:17تو چاند میں سے جائے ہوئے تھے
09:18سفیان میری خیریت درافت کر رہا تھا
09:20میری والدہ میرے لئے بہت پریشان تھی
09:22مجھے ان کی بہت زیادہ فکر تھی
09:24جو میری وجہ سے بہت پریشان تھی
09:25وہ بچی کب کی سوچ چکی تھی
09:27میں نے کھلکی سے پردہ اٹھایا
09:28کہ شاید فون کے سیگنل کچھ بحال ہو سکیں
09:30تو میں اسے امی کو اپنی خیریت بتا سکوں
09:32اس وقت ہلکی ہلکی برہ باری شروع ہو چکی تھی
09:35لیکن جہاں میں تھی
09:47بہت پریشان رہتی تھی
09:47اور پریشانی کے وجہ سے ان کا بی پی شوٹ کر جاتا تھا
09:50وہ تو مجھے یہاں بھیجنے کے حق میں بھی نہیں تھی
09:52میں زبردستی چاند دینے کے لئے یہ آئی تھی
09:54لیکن بری طرح سے پھنس چکی تھی
09:56میں نے اپنی گرم شال خود پر اوڑی اور کمرے سے بار نکل گئی
09:59اس وقت رات کا ایک بج رہا تھا
10:00ہوتل میں سناٹا چھایا ہوا تھا
10:02میں نے ہوتل کی لابی پر بچھے دیکھے تھے
10:04اس بچی کا با بھی ایک ہونے میں لیٹا ہوا تھا
10:07میں نے بس ایک سرسری سی نظر اس پر ڈالی
10:08اور بار نکل گئی تھی
10:09مجھے بس اپنی والدہ کو تسلیح دینی تھی
10:11اس وقت چار سو برف ہی برف تھی
10:13میں ملتان سے یہاں آئی تھی
10:15اور ملتان میں سردی نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے
10:17میں اتنی سردی برداشت کرنے کی عادی نہیں تھی
10:19مجھے موٹے کپڑوں میں سردی لگ رہی تھی
10:21میں نے اپنا موبائل آن کیا
10:22لیکن سگنل ابھی بھی کام تھے
10:23سامنے تقریب میں ایک میل سے کچھ فاصلے پر
10:25لوگ موبائل پر باتیں کر رہے تھے
10:28میں بی سی جانب جانے لگی
10:29بار بار اپنے موبائل دیکھ کر رہی تھی
10:31جہاں سگنل پورے آئیں وہیں
10:33اپنی والدہ سے بات کر لو
10:34میں با مشکل ہی وہاں برف پر چار رہی تھی
10:36آتے گھنٹے بعد میں وہاں پہنچی تھی
10:38جہاں کچھ سگنل آ رہے تھے
10:39میں نے اپنی والدہ کے نمبر ملایا
10:40اس وقت میں سردی میں بری طرح سے کام پر رہی تھی
10:43میری والدہ نے فون اٹھایا
10:44وہ واقعی میرے لئے بید پریشان تھی
10:46کہنے لگی کہ خبریں سن سن کر
10:48ان کا دل دہل رہا تھا
10:49اور سگنل نہ ہونے کے وجہ سے
10:50وہ میرے لئے پریشان تھی
10:51میں ابھی امی سے بات کر رہی تھی
10:53کہ برف باری تیز ہو گئی
10:54اور ننفانن یوں لگا
10:55کہ برف کے گولے سر پر گرنے لگے ہیں
10:57میں نے فون باندھ کی
10:58اور کوٹ کی جے میں ڈالا
10:59میں تیز تیز گدم ہوتل کی جانب
11:01بڑھانے لگی لیکن
11:01اس وقت برف کی شدت نے
11:03میرے آساب جمعنا شروع کر دیئے تھے
11:05برف باری میں اس قدر شدت آ چکے تھی
11:06کہ میرے لئے چلنا محال ہو رہا تھا
11:08اس پر تیز ہوا میری چیرے کو جمع رہی تھی
11:10میں سانس بھی ٹھیک سے نہیں لئی پا رہی تھی
11:12میں اس مشکل سے دو چار تھی
11:13کہ میرا پاؤں برف کے اندر تیسا دنس آ
11:15کہ میں موں کے بل گر گئی
11:28موٹھنے کے بہت کوشش کر رہی تھی
11:30لیکن ناکام تھی
11:30مجھے لگا کہ میں زندگی سے ہاتھ دو بیٹھوں گی
11:33میری سانسے مجھے ڈوبتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی
11:35کچھ دیر بعد ہی میں ہوش میں سے غافل ہو گئی تھی
11:37جب مجھے ہوش آیا تو میرا پورا وجود آنگ سے تپ رہا تھا
11:41بلکہ میرا پورا وجود درد سے چورو چور تھا
11:43میں درد کمارے کرا رہی تھی
11:45مجھے ایسا لگ رہا تھا
11:46میرے آنگ آنگ سے درد اٹھ رہا ہے
11:47میرے جیسے میں جیسے آگ جا رہی ہو
11:49میری ساری رات بہت مشاکت میں گزری ہو
11:51لیکن میں تو ساری رات ہوش سے بیگانہ تھی
11:53پتہ نہیں میرے ساتھ ایسا کیا ہوا تھا
11:55مجھے تو کچھ یاد ہی نہیں
11:56بس بھی ہوشی کی حالت میں
11:58مجھے کسی کی گرم گرم سان سے
11:59اپنے وجود پر محسوس ہو رہی تھی
12:01ایسا لگ رہا تھا
12:02جیسے کوئی میرے لبوں کو چھو رہا ہو
12:03میں نے با مشکل آنکہ کھولی
12:05تو اپنے ہوتل کے کمرے میں تھی
12:06وہ بچی میرے پاس بیٹھی
12:07میرے ہاتھ دبا رہی تھی
12:08سامنے صوفے پر اس کا باپ
12:10نظریں چکائے بیٹھا تھا
12:11مجھے لگا تھا کہ میں مر چکی ہوں گی
12:13مجھے کسی نے بچایا تھا
12:14اور یہاں کیسے پہنچی تھی
12:15میں نے اٹھنے کی کوشش کی
12:16وہ بچی اپنے والد کو بکرنے لگی
12:18کہنے لگی بابا باجی کو ہوش آ گیا ہے
12:20یہ سن کر وہ شاوس کسی گہری سور سے
12:22باہر آیا تھا
12:22پھر اٹھ کر میرے پاس آ گیا
12:24مجھ سے میری خیریت پوچھنے لگا
12:25کہنے لگا وہ مجھے باہر جاتا دیکھ چکا تھا
12:27لیکن اب مجھ سے نظریں نہیں ملا پا رہا تھا
12:29باہر باہر یہی کہہ رہا تھا
12:30میں اس کی غلطی کو معاف کر دوں
12:31کیونکہ وہ مجبور تھا
12:32میں اس کی بات کو سمجھ نہیں پائی
12:34تھی
12:35مجھے لگا شاید وہ میری جان بچانے کے لیے
12:36برف سے اٹھا کر کمرے تک لائیا تھا
12:38اس لیے یہ بات کر رہا تھا
12:39وہ اپنی بیٹے کو لے کر واپس جا چکا تھا
12:41میں بھی چاند دن بعد واپس لاؤٹ آئی تھی
12:43کیونکہ جس قدر برف مری میں پڑ چکی تھی
12:45تعمیراتی کام رکھ چکے تھے
12:46پھر صفیان کے گھر والوں نے بھی شادی کی جلدی مچا دی تھی
12:49دو ماہ کیسے گزرے میں سمجھ ہی نہیں پائی
12:51اور اب اس بچے کو دیکھ کر
12:52مجھے سب کچھ یاد آ گیا تھا
12:54میں اس بچے کو دیکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی تھی
12:56کہ ایسا احسان فرامو شخص تھا
12:57میں نے اسے پناہ دی تھی
12:59اس کی بچے کو سنبالا تھا
13:00اور اس نے میری بے ہوشی کا ناجاز فائدہ اٹھایا تھا
13:02اس سے بہتر تک کہ وہ مجھے مرنے دیتا
13:04کیونکہ جو زندگی میں اس نے مجھے بخشی تھی
13:06میرے لیے موت سے بہتر تھی
13:07گھر واپس آ کر میں نے اپنی والدہ کو ساری حقیقت سے اگاہ کر دیا
13:10میں نہیں جانتی تھی کہ وہ شخص کون ہے
13:12کہاں رہتا ہے
13:12یہاں تک اس کا نام کیا ہے
13:14جس کے بچے کی میں ماں بن چکی تھی
13:16میں نے اپنی زندگی سے سمجھوتا کر لیا تھا
13:18ابھی میرا بچہ چند ماں کا ہی ہوا تھا
13:20کہ میں اسے اس کے امی کے حوالے کر دیا
13:22اور خود جاب کرنے لگی
13:23ایک بار گار آئی تو سامنے اسی شخص کو
13:25اپنی والدہ کے پاس بیٹھے دیکھا
13:27تو دنگر آئے گئی تھی
13:28اس کی بیٹی بھی اس کے ساتھ تھی
13:29خود بھی کچھ بکری سی حالت میں تھا
13:31مجھے دیکھ کر کھڑا ہو گیا
13:33اب بھی کسی مجرم کی طرح سے نظریں جھکا گیا
13:35میں نے اسے نفرت سے دیکھا
13:37لیکن اس سے پہلے کہ میں اسے کچھ کہتی
13:38اس کی بیٹی میرے پاس آ کر
13:39مجھ سے لپٹ گئی
13:40کہنے لگی باجی میں نے آپ کو بہت مس کیا تھا
13:43میں نے اور بابا نے آپ کو بہت ڈنڈا
13:44لیکن آپ نہ جانے کا ہاں کھو گئی تھی
13:46میں نے اس بچے کو کوئی جواب نہ دیا
13:48میری والدہ میرے پاس آ گی
13:49کہنے لگی شخص کو اپنی غلطی کے احساس ہو گیا ہے
13:51کب سے وہ ہماری تلاش میں تھا
13:52اب جا کر ہمیں تلاش کر پایا ہے
13:54تم سے معافی بھی مانگنا چاہتا ہے
13:56اور نکاح بھی کرنا چاہتا ہے
13:57میں نے یہ سن کر
13:58ایک نفرت بھری نظر اس پر ڈالی تھی
13:59اور اس کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی
14:01وہ نظریں جھکایا ہے
14:02کسی مجرم کی طرح میرے سامنے کھڑا تھا
14:03میں نے کہا
14:04میں نے تمہارا کیا بگاڑا تھا
14:05جو تم نے میری زندگی برباد کر دی
14:07اور اب تمہیں احساس ہوا ہے
14:08اب مجھے تم سے کوئی تلق قائم نہیں کرنا
14:10اٹھاؤ اپنا بچہ اور نکل جو میرے گھر سے
14:12یہ کہہ کر میں نام آنکھوں سے
14:14اپنے کمرے میں چھلی گئی
14:15میرے اندر کے سارے ضبط دم دوڑ چکے تھے
14:18میں پورٹ پورٹ کر رونے لگی تھی
14:19سفیان مجھے بے وفا سمجھ رہا ہوگا
14:21جسے میں اس شخص کی وجہ سے
14:22شادی سے چند دن پہلے بنا بتائے چھوڑ کر آئی تھی
14:24اس کی نظروں میں بے وفا ہو چکی تھی
14:27وہ شخص میرے کمرے میں آگیا
14:28مجھ سے کہنے لگا
14:29نایا اکبار میری بات سن لیں
14:31اگر آپ کو یہ لگے کہ میں غلط تھا
14:33تو بے شک جو چائن سزا دے لیں
14:34میں اوف نہیں کروں گا
14:36وہ کہنے لگا جس رات وہ مجھے بے ہوش کی حالت میں کمرے میں لائیا تھا
14:38میں بالکل نیلی ہو چکی تھی
14:40اس لئے میری زندگی کی بقاہ کا
14:41اس کے پاس ایک ہی راستہ تھا
14:43ورنہ وہ کبھی بھی میرے ساتھ یہ گناہ نہ کرتا
14:45اس کے بعد وہ مجھے بنا ساتھ بتائے جا چکا تھا
14:48لیکن احساس جو رم نے اسے چین نہیں لینے دیا
14:51اس لئے مجھے ڈونڈتا ہوا ملتان بھی آیا تھا
14:53لیکن وہاں معلوم ہوا کہ میری شادی ہونے والی ہیں
14:55اس لئے واپس چلا گیا
14:56لیکن چاند دن پہلے ہی اس نے مجھے اپنے دوست کے آفس میں دیکھا
14:58تو معلوم ہوا کہ تمہارا ایک بیٹا ہے
15:00اور شوہر بے رونے ملک میں ہوتا ہے
15:02لیکن وہ پھر مجھ سے اپنے کیئے کی معاف ہی مانگنا چاہتا تھا
15:05اس لئے یہاں آ گیا لیکن میری والدہ نے ساتھ جان کر اسے بہت دکھ ہوا
15:08جس کی وجہ سے میں نے بہت عذیت سہی ہے
15:10وہ کہنے لگا مجھے معاف کر دو اور مجھ سے نکاح کر لو
15:12میں باقی ایک ساری زندگی اپنے جرم کا اضالہ کرتا رہوں گا
15:15لیکن مجھے جرم کے احساس سے نجات دلا دو
15:17میں آپ سب سے پوچھتی ہوں
15:19کیا مجھے اس انسان کے ساتھ نکاح کر لینا چاہیے تھا
15:21جب پھر اپنے ساتھ کی کی زیادتی کسی سزا دینی چاہیے تھی
15:23کیونکہ اس اس کی وجہ سے میں نے نہ حق
15:25بہت اپنی زندگی میں سزائیں کٹے ہیں
15:27اگر آپ کو میرے کہانے پھانے آئے
15:29تو کمینٹ باکس میں ضرور لائک کیجئے گا
15:30اور پلیز میر چینل کو ضرور سبسکرائب کیجئے گا
15:33کلمل تہینک نیکانگ ساتھ
15:34اللہ
Recommended
10:34
|
Up next
12:39
2:19