• 9 years ago
کچھ دل پہ زخم آئے ہیں مر تو نہیں گئے
ہم قاتلوں کے نام سے ڈر تو نہیں گئے

آئی ہے کیوں چمن میں خزاں باز پر س کو
پھول اپنی خوشبوؤں سے مکر تو نہیں گئے

نکلے تھے صبح گھر سےجو اپنی تلاش میں
پھر لوٹ کر وہ شام کو گھر تو نہیں گئے

رسوائیوں میں اور اضافہ یہ کیوں ہوا
ہم اس گلی میں بارِ دگر تو نہیں گئے

قاتل کو زعم ہے نہیں باقی کوئی ثبوت
دریا ہمارے خون کے اتر تو نہیں گئے

اعزاز پانے والے ذرا یہ بھی سوچتے
دستار کے عوض کہیں سر تو نہیں گئے

تو لے رہا ہے جھینپ کے جن دوستوں کا نام
تجھ سے دغا قتیل وہ کر تو نہیں گئے

Recommended