پچاس سال کی محنت 30 سیکنڈ کی کامیابی کیلئے | (Youm-e-Takbeer) | Passu Times Multimedia

  • 9 years ago
آج 28 مئی، یومِ تکبیر ہے۔ آج سے ٹھیک سترا سال پہلے، پاکستان نے ایٹمی دھماکہ کرکے برصغیر میں طاقت کا توازن برابر کردیا۔ لیکن اس کارنامے میں کئی ایسے نام بھی آتے ہیں جن سے بہت کم لوگ واقف ہیں۔ یہ تحریر ایسے ہی کرداروں اور واقعات کا تعارف پیش کرتی ہے۔. 1948ء میں جب قائد اعظم کی درخواست پر پروفیسر ڈاکٹر رفیع محمد چودھری پاکستان منتقل ہوئے، تو گورنمنٹ کالج لاہور میں ’’ہائی ٹینشن لیبارٹری‘‘ کی بنیاد رکھ کر انہوں نے پاکستان میں نیوکلیائی سائنس کی بنیاد رکھ دی تھی۔ یہیں سے فارغ ہونے والے، آپ کے قابل شاگردوں کی ایک بڑی تعداد نے آگے چل کر ایٹم بم بنانے میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا۔ آپ کے براہ راست شاگردوں میں ڈاکٹر اشفاق احمد (سابق چیئرمین، پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (پی اے ای سی))، پروفیسر طاہر حسین (سربراہ شعبہ طبیعیات، گورنمنٹ کالج لاہور)، ڈاکٹر این ایم بٹ (پی اے ای سی)، ڈاکٹر جی ڈی عالم (پی اے ای سی اور کے آر ایل)، ڈاکٹر احسن مبارک (پی اے ای سی)، ڈاکٹر حمید اے خان (پی اے ای سی)، ڈاکٹر انعام الرحمن (پی اے ای سی)؛ اور پھر بالواسطہ شاگرد مثلاً ڈاکٹر طاہر حسین اور ڈاکٹر اشفاق احمد کے شاگرد، جن میں ڈاکٹر ثمر مبارک مند (ایٹمی دھماکہ کرنے والی ٹیم کے سربراہ)، ڈاکٹر جے اے مرزا (سابق چیئرمین کے آر ایل) اور ڈاکٹر ایم ایم بیگ (نیسکوم کے سابق رکن) شامل ہیں۔ یہ تمام لوگ وہ ہیں جو کسی تعریف کے محتاج نہیں۔
تاہم پاکستان نے ’’ایٹم برائے امن‘‘ کے پروگرام کے تحت 1955ء میں پر امن مقاصد کیلئے ایٹمی توانائی حاصل کرنے کیلئے ڈاکٹرنذیر احمدکی سربراہی میں ایک کمیٹی بنائی۔ مئی کو امریکی صدر بل کلنٹن نے وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کو کی گئی، 25 منٹ تک جاری رہنے والی فون کال میں ان سے ایٹمی دھماکہ نہ کرنے کی گزارش کرتے ہوئے اس کہ بدلے میں پاکستان کو بیش بہا امداد دینے کا وعدہ کیا۔ لیکن اس سے بہت پہلے ہی 28 مئی 1998ء کی سہ پہر تین بجے ایٹمی دھماکہ کرنے کا وقت طے کیا جاچکا تھا۔
چاغی میں اس روز موسم صاف اور خوشگوار تھا۔ گراؤنڈ زیرو (ایٹمی دھماکے والے علاقے) سے متعلقہ لوگوں کے سوا تمام افراد کو ہٹالیا گیا تھا۔ 2 بج کر 30 منٹ پر پی اے ای سی کے چیئرمین ڈاکٹر اشفاق احمد، ڈاکٹر عبدالقدیر خان، جاوید ارشد مرزا اور فرخ نسیم بھی وہاں موجود تھے۔ تین بجے تک ساری کلیئرنس دی جاچکی تھی۔ پوسٹ پر موجود بیس افراد میں سے محمد ارشد کو، جنہوں نے ’’ٹرگرنگ مشین‘‘ ڈیزائن کی تھی، بٹن دبانے کی ذمہ داری دی گئی۔ تین بج کر سولہ منٹ پر محمد ارشد نے جب ’’اﷲ اکبر‘‘ کی صدا بلند کرتے ہوئے بٹن دبایا تو وہ گمنامی سے نکل کر ہمیشہ کیلئے تاریخ میں امر ہوگئے۔
بٹن دباتے ہی سارا کام کمپیوٹر نے سنبھال لیا۔ اب ساری نگاہیں دس کلومیٹر دور پہاڑ پر جمی ہوئی تھیں۔ دل سہمے ہوئے لیکن دھڑکنیں رک گئی تھیں۔ بٹن دبانے سے لے کر پہاڑ میں دھماکہ ہونے تک صرف تیس سیکنڈ کا وقفہ تھا؛ لیکن وہ تیس سیکنڈ، باقی ساری زندگی سے طویل تھے۔ یہ بیس سال پر مشتمل سفر کی آخری منزل تھی۔ یہ بے یقینی اور شک کے لمحات سے گزر کر، مشکلات اور مصائب پر فتح پانے کا لمحہ تھا
بشکریہ اُردُو محفل

Recommended